بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

 ثواب کی نیت سے کسی بیمار کو خون دینا


سوال

ثواب کی نیت سے کسی بیمار کو خون دینا کیسا ہے؟

جواب

 جب مریض اضطراری حالت میں ہو اور ماہر ڈاکٹر  کی  نظر میں خون دیے بغیر اس کی جان بچانے کا کوئی راستہ نہ ہوتو خون دینا جائز ہے، نیز جب ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دینے کی حاجت ہو، یعنی مریض کی ہلاکت کا خطرہ تو نہ ہو، لیکن اس کی رائے میں خون دیے بغیر صحت کا امکان نہ ہو، تب بھی خون دینا جائز ہے۔ ان صورتوں میں اگر کوئی کسی کی جان بچانے کی نیت سے اس طرح کرے تو ان شاء اللہ اجر بھی ملے گا۔  فتاوی شامی میں ہے:

"(وَلَمْ يُبَحْ الْإِرْضَاعُ بَعْدَ مَوْتِهِ)؛ لِأَنَّهُ جَزْءُ آدَمِيٍّ، وَالِانْتِفَاعُ بِهِ لِغَيْرِ ضَرُورَةٍ حَرَامٌ عَلَى الصَّحِيحِ، شَرْحُ الْوَهْبَانِيَّةِ. وَفِي الْبَحْرِ: لَايَجُوزُ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ الْمَأْكُولِ، كَمَا مَرَّ. (قَوْلُهُ: وَفِي الْبَحْرِ) عِبَارَتُهُ: وَعَلَى هَذَا أَيْ الْفَرْعِ الْمَذْكُورِ لَا يَجُوزُ الِانْتِفَاعُ بِهِ لِلتَّدَاوِي. قَالَ فِي الْفَتْحِ: وَأَهْلُ الطِّبِّ يُثْبِتُونَ لِلَبَنِ الْبِنْتِ أَيْ الَّذِي نَزَلَ بِسَبَبِ بِنْتٍ مُرْضِعَةٍ نَفْعًا لِوَجَعِ الْعَيْنِ. وَاخْتَلَفَ الْمَشَايِخُ فِيهِ، قِيلَ: لَا يَجُوزُ، وَقِيلَ: يَجُوزُ إذَا عَلِمَ أَنَّهُ يَزُولُ بِهِ الرَّمَدُ، وَلَايَخْفَى أَنَّ حَقِيقَةَ الْعِلْمِ مُتَعَذِّرَةٌ، فَالْمُرَادُ إذَا غَلَبَ عَلَى الظَّنِّ وَإِلَّا فَهُوَ مَعْنَى الْمَنْعِ اهـ. وَلَايَخْفَى أَنَّ التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ لَايَجُوزُ فِي ظَاهِرِ الْمَذْهَبِ، أَصْلُهُ بَوْلُ مَا يُؤْكَلُ لَحْمُهُ فَإِنَّهُ لَايُشْرَبُ أَصْلًا. اهـ. (قَوْلُهُ: بِالْمُحَرَّمِ) أَيْ الْمُحَرَّمُ اسْتِعْمَالُهُ طَاهِرًا كَانَ أَوْ نَجَسًا ح (قَوْلُهُ: كَمَا مَرَّ) أَيْ قُبَيْلَ فَصْلِ الْبِئْرِ حَيْثُ قَالَ: فَرْعٌ اُخْتُلِفَ فِي التَّدَاوِي بِالْمُحَرَّمِ. وَظَاهِرُ الْمَذْهَبِ الْمَنْعُ كَمَا فِي إرْضَاعٍ الْبَحْرِ، لَكِنْ نَقَلَ الْمُصَنِّفُ ثَمَّةَ وَهُنَا عَنْ الْحَاوِي: وَقِيلَ: يُرَخَّصُ إذَا عَلِمَ فِيهِ الشِّفَاءَ وَلَمْ يَعْلَمْ دَوَاءً آخَرَ كَمَا خُصَّ الْخَمْرُ لِلْعَطْشَانِ وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى. اهـ".  (3 / 211، باب الرضاع، ط:سعید) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144107201035

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں