بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی عالم سے سنی ہوئی یا کسی رسالے میں پڑھی ہوئی حدیث تحقیق کیے بغیر آگے بیان کرنا


سوال

 اگر کوئی شخص بغیر تحقیق کے حدیث بیان کرے مثلاً کسی رسالے میں کوئی حدیث پڑھ لے، یا کسی عالم سے کوئی حدیث سن لے اور بغیر تحقیق کے وہ حدیث آگے بیان کرے، تو کیا حکم ہے؟  

جواب

جس عالم سے حدیث سنی ہے یا جس رسالے میں حدیث پڑھی ہےاگر وہ عالم یا رسالہ معتمد اور مستند ہو، حدیث بیان کرنے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیتا ہو تو ایسی صورت میں خود تحقیق کیے بغیر اس عالم یا رسالے پر اعتماد کرتے ہوئے ان سے آگے حدیث بیان کرنے کی گنجائش ہوگی، اور اگر وہ عالم یا رسالہ احادیث بیان کرنے میں احتیاط سے کام نہ لیتا ہو، رطب و یابس بیان کرنے میں شہرت رکھتا ہو تو ایسے ذرائع سے آگے حدیث بیان کرنے سے قبل از خود بھی تحقیق کرلی جائے ، اگر حدیث کا صحیح ہونا واضح ہوجائے تو آگے بیان کی جائے ورنہ نہیں کیوں کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کوئی ایسی بات ہو جو واقعتاً حدیث نہ ہو، تو ایسی صورت میں آگے پھیلانے والے کے لیے احادیث میں بہت سخت  وعید آئی ہے۔

 حدیث مبارک میں ہے:

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من كذب علي متعمداً، فليتبوأ مقعده من النار."

(صحیح مسلم ،1 / 10، باب في التحذير من الكذب على رسول الله صلى الله تعالى عليه وسلم، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)

ترجمہ : ’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:  جو شخص جان بوجھ کر میری طرف جھوٹی بات کی نسبت کرے،  وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں بنالے۔‘‘

 ’’فتح المغيث بشرح ألفية الحديث‘‘ ميں هے:

"وبالجملة فسبيل من ‌أراد ‌الاحتجاج بحديث من السنن، لا سيما ابن ماجه ومصنف ابن أبي شيبة، وعبد الرزاق مما الأمر فيها أشد، أو بحديث من المسانيد واحد ; إذ جميع ذلك لم يشترط من جمعه الصحة ولا الحسن خاصة.

وهذا المحتج إن كان متأهلا لمعرفة الصحيح من غيره، فليس له أن يحتج بحديث من السنن من غير أن ينظر في اتصال إسناده، وحال رواته.

كما أنه ليس له أن يحتج بحديث من المسانيد، حتى يحيط علما بذلك، وإن كان غير متأهل لدرك ذلك، فسبيله أن ينظر في الحديث، فإن وجد أحدا من الأئمة صححه أو حسنه، فله أن يقلده، وإن لم يجد ذلك، فلا يقدم على الاحتجاج به، فيكون كحاطب ليل، فلعله يحتج بالباطل، وهو لا يشعر."

(1/ 118، مكتبة السنة مصر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144405101774

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں