1۔میرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، میرے تین بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں، جن سے میں دو بیٹے اور دو بیٹیوں کی شادی ہو گئی ہے؛ آج سے تقریباً بیس سال پہلے میرے دوسرے نمبر کے بیٹے نے کاروباری سلسلے میں مجھ سے پیسے مانگے کہ آپ اپنی بالیاں اور دو چوڑیاں(ساڑھے تین تولے) بیچ کران کے پیسے مجھے دے دیں، میں نے اپنی بالیاں اور چوڑیاں بیچ کر ان کے پیسے بطورِ قرض اپنے بیٹے کو دے دیے تھے، اس نے اپنا کاروبار شروع کیا پھر بعد میں اس نے اپنی کمائی میں سے مجھے ساڑھے تین تولے سونے کی قیمت ایک لاکھ پینسٹھ ہزار روپے دے کر کہا کہ آپ اپنی وہ تمام چیزیں دوبارہ بنوا لیں، میں نے ان پیسوں سے دو چوڑیاں اور جھمکے بنوا لیے تھے؛ اب تقریباً بیس سال بعد میرا بیٹا کہہ رہا ہے کہ مجھے چوڑیاں اور جھمکے واپس کرو وہ میرے پیسوں سے بنائے تھے، جب کہ میں ہر سال ان کی زکات بھی ادا کرتی ہوں۔
کیا شرعاً اس کا مطالبہ کرنا درست ہے؟
2۔میرے شوہر کا دو کمروں کا گھر تھا(ترکہ تقسیم نہیں ہوا تھا)میرے دوسرے نمبر والے بیٹے کی شادی ہونے والی تھی تو میں نے اس سے کہا کہ تم شادی کرکے الگ ہو جاؤ ا ور الگ گھر بنا لو، لیکن اس نے کہا کہ میں آپ کے ساتھ ہی رہوں گا، میں بڑا گھر لے لیتا ہوں تو اس نے میرے شوہر کا گھر دس لاکھ کا بیچ کر اس میں سات لاکھ ملا کر تین کمروں کا بڑا گھر لے لیا اور کہا کہ میں یہ رقم واپس کبھی نہیں مانگوں گا اور کبھی الگ ہونا پڑا تو میں اپنی بیوی کو لے کر الگ چلا جاؤں گااور رقم کا تقاضہ نہیں کروں گا،لیکن اب گیارہ سال بعد میرا بیٹا مجھ سے گھر فروخت کر کے سات لاکھ کی رقم کا حساب اس زمانے کے لحاظ سے مانگ رہا ہےجب کہ میری ایک بیٹی اور ایک بیٹا کنوارے ہیں۔
اب میں کیسے فروخت کروں اور کہاں جاؤں ؟ جب کہ پہلے میرے بیٹے نے سات لاکھ (اولاد کے فرائض ) کے طور پر لگائے تھے، اب اس رقم کی واپسی کا مطالبہ کر رہا ہے۔
1۔صورتِ مسئولہ میں جب آپ کے بیٹے نے مذکورہ رقم ایک لاکھ پینسٹھ ہزار روپے واپس کرتے ہوئے صراحت کر دی تھی کہ آپ نے جن زیورات کی رقم مجھے دی تھی وہ زیورات ان پیسوں سے دوبارہ بنوالیں تو مذکورہ رقم سے اس نےقرض کی ادائیگی کی ہے، پھر اس رقم سے آپ نےجو زیورات بنائے ہیں وہ زیورات آپ ہی کی ملکیت ہیں اب بیٹے کا واپسی کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے۔
2۔ آپ کے بیٹے نے جب ترکے والا مکان دس لاکھ میں فروخت کیا اور اس نے اپنی طرف سے مزید سات لاکھ روپے شامل کر کے دوسرا مکان خرید لیا اوراس بات کی صراحت بھی کردی کہ میں کبھی بھی اس رقم کی واپسی کا مطالبہ نہیں کروں گا، تو مذکورہ سات لاکھ روپے اس کی طرف سے تبرع اور احسان ہے، اب اس کا سات لاکھ روپے کے بقدر حصے کا مطالبہ کرنا شرعاً درست نہیں ہے، بلکہ مذکورہ پورا مکان تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے بقدر تقسیم کیا جائے گا۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"وعن أبي حرة الرقاشي عن عمه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ألا تظلموا ألا لا يحل مال امرئ إلا بطيب نفس منه. رواه البيهقي في شعب الإيمان والدارقطني في المجتبى".
(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج : 1، ص : 261، ط : رحمانیة)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے :
" (وعن أبي حرة)...(الرقاشي) ...(عن عمه).. (قال: قال رسول الله : ألا) بالتخفيف للتنبيه (لا تظلموا) أي لا يظلم بعضكم بعضاً، كذا قيل. والأظهر أن معناه : لا تظلموا أنفسكم. وهو يشمل الظلم القاصر والمتعدي. (ألا) للتنبيه أيضاً وكرره تنبيهاً على أن كلاً من الجملتين حكم مستقل ينبغي أن ينبه عليه، وأن الثاني حيث يتعلق به حق العباد أحق بالإشارة إليه والتخصيص لديه (لا يحل مال امرىء) أي مسلم أو ذمي إلا بطيب نفس أي بأمر أو رضا منه".
(كتاب البيوع، باب الغصب والعارية، الفصل الثاني، ج : 5، ص : 134/35، ط : دار الکتب العلمیة)
درر الحكام في شرح مجلۃ الأحكام میں ہے :
"تقسم حاصلات الأموال المشتركة في شركة الملك بين أصحابها بنسبة حصصهم، يعني إذا كانت حصص الشريكين متساوية أي مشتركة مناصفة فتقسم بالتساوي وإذا لم تكن متساوية بأن يكون لأحدهما الثلث وللآخر الثلثان فتقسم الحاصلات على هذه النسبة؛ لأن نفقات هذه الأموال هي بنسبة حصصهما، انظر المادة (1308) وحاصلاتها أيضا يجب أن تكون على هذه النسبة؛ لأن الغنم بالغرم بموجب المادة."
(الکتاب العاشر الشرکات، المادۃ : 1073، ج : 3، ص:26، ط : دار الجیل)
فيض الباری میں ہے :
"ففي القنية: المتبرع لا يرجع فيما تبرع به، فباب الرجوع لا يمشي في التبرعات، بخلاف الهبة."
(كتاب الهبة، باب هبة الواحد للجماعة، ج : 4، ص : 58، ط : دار الکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602100444
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن