بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی ایک وارث کا جبری طور پر جائیداد خود خریدنا/ سورۃ التوبہ آیت 23 کی وضاحت


سوال

اگر کوئی وارث وراثت کی جائیداد میں خود سے معاہدہ تیار کرکے اپنی مرضی سے خود جائیداد کا خریدار ظاہر کرے اور اس تحریری معاہدہ پر باقاعدہ گواہان موجود نہ ہوں،اور نہ ہی اس میں وقت معین پر رقم کی ادا ئیگی کا  ذکر ہو،تو کیا اس معاہدے کا اعتبار کیا جائے گا؟نیز سورہ توبہ کی آیت نمبر 23 میں ایمان والوں کو اپنے بھائی اور باپوں سے دوستی نہ رکھنے کی تاکیدی حکم آیا ہے،اس کی وضاحت فرما دیجیے۔

جواب

معاہدہ تو شرعا فریقین کے درمیان باہمی رضامندی سے طے پاتا ہے، اور خریداری میں فروخت کرنے والے کی رضامندی شرط ہے،لہذا بغیر رضامندی کے کوئی ایک وارث جبری طور پر وراثت کی جائیداد کوخود سے نہیں رکھ سکتا ،البتہ تحریری معاہدہ پر گوہان کا ہونا شرط نہیں ،اور اگر معاہدہ باہمی رضامندی سے طے پایا ہے اور اس میں پیسوں کی ادائیگی نقد یا ادھار طے نہیں پائی  تو مذکورہ وارث (خریدار) پر نقد ادائیگی لازم ہے اور اگر ادھار دینا طے پایا تھا لیکن اس کا کوئی وقت طے نہیں پایا تھا تو ایک ماہ کی مہلت میں رقم ادا کرنا ضروری ہے۔

باقی آپ نے سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 23 کا حوالہ دیا، مکمل آیت یہ ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْۤا اٰبَآءَكُمْ وَ اِخْوَانَكُمْ اَوْلِیَآءَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْكُفْرَ عَلَى الْاِیْمَانِؕ-وَ مَنْ یَّتَوَلَّهُمْ مِّنْكُمْ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَ(23)

اے ایمان والو!اپنے باپوں کو اور اپنے بھائیوں کو اپنارفیق مت بناؤ اگر وہ لوگ کفر کو بمقابلہ ایمان کے عزیز رکھیں اور جو شخص تم میں سے ان کے ساتھ رفاقت رکھے گا سو ایسے لوگ بڑے نافرمان ہیں۔

واضح رہے قرآن مجید کی آیات باہم مربوط ہیں لہذا ہر آیت کو اس کے سیاق وسباق کی روشنی میں سمجھنا چاہیے،نیز مکمل آیت  بیان کرنے کے بجائے ناقص آیت بیان کرکے اس سے خلاف منشاء  استدلال کرنا صحیح نہیں ہے۔

چنانچہ ماسبق آیات میں ہجرت اور جہاد کے  فضائل کا بیان وارد ہوا ہے،جن مین وطن اور اعزاء واقارب اور حباب واصحاب اور اموال واملاک سب کو چھوڑنا پڑتا ہے،اور ظاہر کہ انسان کی طبیعت پر یہ کام سب سے زیادہ شاق اور دشوار ہیں،اس لیے مذکورہ آیت میں ان چیزوں کے ساتھ حد سے زیادہ تعلق اور محبت کی مذمت فرماکر مسلمانوں کے ذہنوں کو ہجرت وجہاد کے لیے آمادہ کیا گیا ہے۔

ماں باپ،بھائی بہن اور تمام رشتہ داروں سے تعلق مضبوط رکھنے اور ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی ہدایت سے سارا قرآن بھرا ہوا ہے،مگر اس آیت میں یہ بتلادیاکہ ہر تعلق کی ایک حد ہے ،ان میں سے ہر تعلق خواہ ماں باپ اور اولاد کا ہو،یاحقیقی بھائی بہن کا،اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے تعلق کے مقابلہ میں نظر انداز کرنے کے قابل ہے،جس موقعے پر یہ دونوں رشتے ٹکرا جائیں،تو پھررشتہ وتعلق اللہ ورسول صلی اللہ علیہ وسلم  کا ہی قائم رکھنا ہے،اس کے مقابلے میں سارے تعلقات سے قطع نظر کرنا چاہیے۔(از معارف القرآن،ج4،ص337،ط؛مکتبہ معارف القرآن)

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(فالإيجاب) هو: (ما يذكر أولا من كلام) أحد (المتعاقدين) والقبول ما يذكر ثانيا من الآخر سواء كإن بعت أو اشتريت الدال على التراضي) قيد به اقتداء بالآية وبيانا للبيع الشرعي، ولذا لم يلزم بيع المكره وإن انعقد، ولم ينعقد مع الهزل لعدم الرضا بحكمه معه.

(قوله: الدال على التراضي) الأولى أن يقول الرضا كما عبر به في الفتح والبحر؛ لأن التراضي من الجانبين لا يدل عليه الإيجاب وحده بل هو مع القبول أفاده ح. (قوله: قيد به اقتداء بالآية) وهي قوله تعالى - {إلا أن تكون تجارة عن تراض منكم} [النساء: 29]-. (قوله: وبيانا للبيع الشرعي) استظهر في الفتح أن التراضي لا بد منه في البيع اللغوي أيضا، فإنه لا يفهم من باع زيد عبده لغة إلا أنه استبدله بالتراضي. اهـ. ونقل مثله القهستاني عن الكفاية والكرماني وقال: وعليه يدل كلام الراغب خلافا لشيخ الإسلام."

(کتاب البیوع،ج4،ص507،ط؛سعید)

وفیہ ایضاً:

"(وصح بثمن حال) وهو الأصل (ومؤجل إلى معلوم) لئلا يفضي إلى النزاع ولو باع مؤجلا صرف لشهر به يفتى

ولو اختلفا في الأجل فالقول لنافيه إلا في السلم به يفتى ولو في قدره فللمدعي الأقل والبينة فيهما للمشتري ولو في مضيه فالقول والبينة للمشتري.

(قوله: ولو باع مؤجلا) أي بلا بيان مدة بأن قال: بعتك بدرهم مؤجل. (قوله: صرف لشهر) كأنه؛ لأنه المعهود في الشرع في السلم واليمين في ليقضين دينه آجلا بحر."

(کتاب البیوع،ج4،ص532،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100399

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں