ہم دو پارٹنرز ہیں، ہمارا چھوٹا سا بائنڈنگ کا کام ہے، ہمارا حساب کتاب یہ ہے کہ مہینہ کی جو سیل ہوتی ہے، ہم اس کا پانچ تاریخ کو حساب کتاب کرتے ہیں، دکان کا کرایہ اور اسی طرح دیگر خرچ نکالنے کے بعد جو سیل بچتی ہے، وہ ہم دونوں آپس میں آدھا آدھا تقسیم کرلیتے ہیں، اگر کوئی پارٹنر چھٹی کرتا ہے تو دوسرا کام کرتا ہے، مثلًا اگر کوئی پارٹنر مہینہ ڈیڑھ مہینہ کی چھٹی کرتا ہے، توتب بھی دونوں سیل کا آدھا آدھا حصہ لیتے ہیں، ہم سارے پیسے دکان پر ہی رکھتے ہیں، اور پانچ تاریخ کو دکان کے خرچے وغیرہ نکالنے کے بعد آپس میں تقسیم کرلیتے ہیں، تو اب ہمارے ساتھ مسئلہ یہ ہوا کہ درمیان میں ایک پارٹنر چھٹی پر گیا ہوا تھا، تو اس دوران ستر ہزار روپے دونوں کے حصے میں آئے، ایک پارٹنر نے اپنے پیسے لے کر استعمال کرلئے، اور دوسرے پارٹنرکے پیسوں میں سے بیس ہزار روپے اس نے لے لئے، اور اس نے یہ کہا کہ پانچ تاریخ آتے ہی میں دوسرے کو اس کے پورے ستر ہزار روپے دے دوں گا، دوسرے پارٹنر کے باقی بچے ہوئے پچاس ہزار اس نے اپنے گھر میں رکھ دیئے، اور یہ کہا کہ جب دوسرا آئے گا تو اس کو دے دوں گا، لیکن وہ پیسے اس کے گھر سےغائب ہوگئے، اور مل ہی نہیں رہے ہیں، اب سوال یہ ہے کہ آیا اب یہ پچاس ہزار روپے اس پارٹنر پر دینا لازم ہے یا نہیں؟ جب کہ وہ بیس ہزار روپے جو اس نے اپنے پارٹنر کے استعما ل کئے ہیں، وہ اس کودے چکا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ رقم کی حیثیت امانت کی تھی، اگر سارے پیسے دکان پر رکھنے کا معمول تھا، اس کے باوجود بھی ایک شریک دوسرے شریک کے نفع کی رقم گھر لے گیا ہے تو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر دوسرے شریک کی طرف سے پیسے گھر لے جانے کی صراحتاً یا دلالتاً اجازت نہیں تھی تو ایسی صورت میں پیسے گھر لے جانے سے ہی امانت میں تعَدِّی (امانت کی حفاظت میں کوتاہی) پائی گئی، اس کے بعد رقم کے غائب ہوجانے سے مذکورہ شریک پر اس کا ضمان لازم ہے، یعنی وہ دوسرے شریک کو مکمل رقم ادا کرنے کا ذمہ دار ہے، اور اگر دوسرے شریک کی طرف سے پیسے گھر لے جانے کی صراحتاً یا دلالتاً جازت تھی تو محض گھر لے جانے سے تو تعدی نہیں پائی گئی البتہ چونکہ مذکورہ شریک رقم ضائع ہونے کا کوئی معتبر اور معقول سبب بیان نہیں کررہا کہ جس سے تعدی نہ ہونے کا فیصلہ کیا جائے، محض رقم غائب ہونے کا دعوی کرنے سے عدمِ تعدی کا حکم نہیں لگے گا، لہذا اس شریک کو چاہیے کہ تعدی نہ ہونے کا کوئی معتبر اور قابل تشفی ثبوت پیش کرے ورنہ اس پر غائب شدہ رقم کا ضمان لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وهو) أن الشريك (أمين في المال فيقبل قوله) بيمينه (في) مقدار الربح والخسران والضياع.....(قوله: والضياع) أي ضياع المال كلا أو بعضا ولو من غير تجارة."
(کتاب الشرکة، مطلب فيما يبطل الشركة، ج:4، ص:319، ط: دار الفکر)
شرح المجلہ لسلیم رستم باز میں ہے:
"الوديعة أمانة في يد المودَع، فإذا هلكت بلا تعد منه و بدون صنعه و تقصيره في الحفظ لايضمن، ولكن إذا كان الإيداع بأجرة فهلكت أو ضاعت بسبب يمكن التحرز عنه لزم المستودع ضمانها."
(الكتاب السادس في الأمانات، الباب الثاني في الوديعة، الفصل الثاني في احكام الوديعة، ج:1، ص:342، ط: مكتبه رشيديه)
مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:
"(المادة 787) إذا هلكت الوديعة أو طرأ نقصان على قيمتها في حال تعدي المستودع أو تقصيره يلزم الضمان."
(الکتاب السادس في الأمانات، الباب الثاني في الودیعة، ص150، ط: کارخانه تجارت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144605102302
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن