بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کسی کےاکاؤنٹ میں غلطی سےدوسرے کی رقم آجانے کی صورت میں شرعی حکم


سوال

میرےجاز کیش اکاؤنٹ میں کسی کےایک ہزارروپےآگئےہیں،اورپتہ بھی نہیں کہ کس نےبھیجااورنہ پھرکسی نےرابطہ کیا،کیاوہ پیسےاب میں استعمال کرسکتاہوں یانہیں؟ جبکہ مجھے ضرورت بھی ہیں۔

جواب

واضح رہےکہ اگر کسی کو کوئی چیز گری پڑی مل جائے اور مالک کا پتا نہ ہوتو (شرعًا اسے "لقطہ"کہاجاتاہے،مذکورہ رقم بھی اسی زمرے میں آتی ہے،سو اس طرح کی چیزوں کا حکم یہ ہےکہ)وہ چیز ملنے والے کےپاس بطورِامانت ہوتی ہے،اور اسےاس میں کسی قسم کےتصرّف کا اختیار  نہیں ہوتا،شرعًا ملنے والےکے ذمّہ ہوتا ہے کہ اصل مالک کو تلاش کرکے اس تک وہ چیز پہنچادے،اس کےبعد بھی اگر مالک کاپتا نہ ملے تو اسےصدقہ کردے،اگر وہ مستحق ہے تو خود بھی استعمال کرسکتا ہے،لہٰذا صورتِ مسئولہ میں  مذکورہ رقم آپ کےپاس امانت ہے،فی الحال آپ مالک کی اجازت کےبغیراسے اپنےاستعمال میں نہیں لاسکتے،آپ کےذمّہ واجب ہےکہ یہ رقم اس کے مالک کا پتا معلوم کرکے اس تک پہنچادیں ،مالک کاپتا معلوم کرکے اس تک رقم پہنچانے کا طریقہ یہ ہے کہ جس ہفتے میں یہ رقم آپ کے اکاؤنٹ میں منتقل ہوئی ہے آپ اس ہفتے کی بینک اسٹیٹمنٹ نکال لیں،اس سے آپ کو بھیجنے والے کا اکاؤنٹ نمبر پتہ چل جائے گا،لہذا وہ رقم (یا اگر آپ اسے استعمال کرچکےہیں تو اتنی ہی رقم)آپ اس اکاؤنٹ میں واپس بھجوادیں،بالفرض اس کےباوجود بھی مالک کا پتا نہ چلے تو اتنی ہی  رقم آپ کےذمّہ صدقہ کرنا  واجب ہوگا،ہاں اگر آپ غریب و مستحق  ہیں تو مالک کی تلاش کےبعد بھی اس کا پتہ نہ ملنے کی صورت میں  خود بھی استعمال کرسکتےہیں۔ تاہم اس کے بعد اگر مالک نے رجوع کرکے رقم کا ثبوت پیش کردیا اور رقم کا مطالبہ کیا تو سائل   کو یہ رقم لوٹانی ہوگی۔

الجوہرۃ النیرۃ میں ہے:

"والأمانة هي الشيء الذي وقع في يده من غير قصد بائن ‌ألقت ‌الريح ثوبا في حجره والحكم في الوديعة أنه يبرأ من الضمان إذا عاد إلى الوفاق وفي الأمانة لا يبرأ إلا بالأداء إلى صاحبها."

(كتاب الوديعة، ج:1، ص:346، ط:المطبعة الخيرية مصر)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیہ میں ہے:

"الأمانة: ضد الخيانة، والأمانة تطلق على: كل ما عهد به إلى الإنسان من التكاليف الشرعية وغيرها كالعبادة والوديعة، ومن الأمانة: الأهل والمال......ما كانت بدون عقد كاللقطة، وكما إذا ألقت الريح في دار أحد مال جاره، وذلك ما يسمى بالأمانات الشرعية."

(حرف الألف،ج:6، ص:36، ط:دارالسلاسل)

ملتقی الابحر اور اس کی شرح مجمع الانھر میں ہے:

"(ويعرفها في مكان أخذها وفي المجامع مدة يغلب على ظنه طلب صاحبها بعدها هو الصحيح وقيل: إن كانت عشرة دراهم فأكثر فحولا وإن كانت أقل فأياما وما لا يبقى يعرف إلى أن يخاف فساده ثم) أي بعد ما مضى مدة التعريف ولم يظهر مالكهاعوضها (يتصدق بها إن شاء)لأنه لما عجز عن إيصال عين اللقطة إلى صاحبها جاز له أن يوصل عوضها وهو الثواب على اعتبار إجازته إلا أن الأفضل أن يحفظه ليجيء صاحبها فإن التصدق رخصة والحفظ عزيمة(فإن جاء ربها بعده أجازه وأجره له أو ضمن الملتقط أو الفقير أو هالكة وأيهما ضمن لا يرجع على الآخر ويأخذها منه إن باقية".

(کتاب اللقطۃ،ج:1،ص:706،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال رحمه الله (ثم تصدق) أي تصدق باللقطة إذا لم يجئ صاحبها بعد التعريف لأن الواجب عليه حفظها وأداؤها إلى أهلها قال الله تعالى {إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها} [النساء: 58] وذلك بالتسليم إليه عند القدرة وبالتصدق عنه عند عدمها إذ إيصال بدلها وهو الثواب كإيصال عينها وإن شاء أمسكها رجاء الظفر بصاحبها وروي عن ابن مسعود رضي الله عنه أنه اشترى جارية فذهب البائع فلم يقدر عليه فتصدق عنه بثمنها".

(کتاب اللقطۃ،ج:43،ص:304،ط:المطبعۃ الکبری الامیریۃ بولاق مصر)

مجمع الانھر فی شرح ملتقی الابحر میں ہے:

"(وللملتقط أن ينتفع باللقطة بعد التعريف لو) كان (فقيرا) لأن صرفه إلى فقير آخر كان للثواب وهو مثله.وفي الظهيرية لو باعها الفقير وأنفق الثمن على نفسه ثم صار غنيا يتصدق بمثله على المختار (وإن) كان الملتقط (غنيا تصدق بها) أي اللقطة على فقير بعد التعريف ولو بلا إذن الحاكم ويجوز للغني الانتفاع بإذنه على وجه القرض كما في أكثر المعتبرات لكن في الخانية خلافه في الصورتين تتبع".

(کتاب اللقطۃ،ج:1،ص:708،ط:دار احیاء التراث العربی بیروت لبنان)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں