اکثر لوگ کہتے ہیں کہ ’’میرا سلام فلاں شخص کو پہنچا دینا‘‘ یا ’’فلاں کو میرا سلام کہنا‘‘ وغیرہ شرعًا اس کا کیا حکم ہے؟ اور جس کو سلام پہنچانے کا کہاجائے تو کیا اُس پر آگے مطلوبہ شخص تک سلام پہنچانا لازم ہے؟
واضح رہے کہ اگر کوئی شخص کسی سے کہے کہ ’’ فلاں کو میرا سلام پہنچا دینا‘‘ یا ’’فلاں کو میرا سلام کہنا‘‘ وغیرہ تو اس طرح سلام کہلوانا یا سلام بھجوانا صرف جائز ہی نہیں، بلکہ سنت بھی ہے، اور یہ آپس کی محبت اور الفت کا باعث بھی ہے، اور جس طرح مشافہتاً مسلمان بھائی کو سلام کرنا سنت، اور اس کا جواب دینا واجب ہے، کسی کے ذریعے سلام بھجوانے کا بھی یہی حکم ہے، چناں چہ جس شخص کو سلام بھیجا گیا ہے اس پر اس سلام کا جواب دینا واجب ہوتا ہے، اور جواب میں بہتر یہ ہے کہ سلام لانے والے اور بھیجنے والے دونوں کا ذکر کرے، جس میں بھی پہلے سلام لانے والے کو ذکر کرے پھر سلام بھیجنے والے کو، مثلاً یوں کہے کہ ’’عليك وعليه السلام‘‘۔
اور جس شخص کو سلام پہنچانے کا کہا جائے تو اُس پر آگے مطلوبہ شخص تک سلام پہنچانا شرعًا لازم ہوتا ہے، اس لیے کہ سلام پہنچانے کی ذمّہ داری قبول کرنے کے بعد یہ سلام امانت بن جاتی ہے، اور امانت حقدار تک پہنچانا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا بلا وجہ مطلوبہ شخص تک سلام نہ پہنچانے کی صورت میں وہ گناہ گار ہوگا، تاہم اگر وہ اس ذمّہ داری کو اپنے اوپر لازم نہ کرے اوریہ کہہ دے کہ ’’ان شاء اللہ اگر یاد رہا یا ملاقات ہوئی تو عرض کردوں گا‘‘ یا اس جیسے الفاظ کا استعمال کرے جس سے ذمّہ داری لاگو نہ ہوتی ہو تو ایسی صورت میں سلام کا پہنچانا واجب نہ ہوگا، البتہ پھر بھی اگر سلام پہنچا دے تو احسان ہوگا۔
قرآن کریم میں ہے:
"وَإِذا حُيِّيتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوا بِأَحْسَنَ مِنْها أَوْ رُدُّوها إِنَّ اللَّهَ كانَ عَلى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيباً."(سورۃ النساء، آية:86)
ترجمہ: ’’اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو تم اس سے اچھے الفاظ میں سلام کرو یا ویسے ہی الفاظ کہہ دو، بلاشبہ الله تعالیٰ ہر چیز پر حساب لیں گے ۔‘‘
حدیث شریف میں ہے:
"عن ابن عون، قال: كان محمد إذا قيل له: إن فلانا يقرئك السلام، قال: «وعليك وعليه السلام»."
(المصنف لابن أبی شيبۃ، كتاب الأدب، في الرجل يبلغ الرجل السلام ما يقول له، ج:5، ص:244، رقم الحدیث:25695، ط:دار التاج لبنان)
"عن غالب، قال إنا لجلوس بباب الحسن إذ جاء رجل فقال حدثني أبي عن جدي قال: بعثني أبي إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ائته فأقرئه السلام. قال: فأتيته فقلت إن أبي يقرئك السلام. فقال: "عليك وعلى أبيك السلام."
(سنن أبي داود، أبواب السلام، باب: في الرجل یقول فلان یقرئک السلام، ج:4، ص:528، رقم الحدیث:5231، ط:المطبعة الأنصارية بدهلي الهند)
"حدثنا أبو نعيم، حدثنا زكرياء، قال سمعت عامرا، يقول: حدثني أبو سلمة بن عبد الرحمن، أن عائشة رضى الله عنها حدثته أن النبي صلى الله عليه وسلم قال لها: "إن جبريل يقرئك السلام.قالت: وعليه السلام ورحمة الله."
(صحیح البخاري، كتاب الاستئذان، باب: إذا قال فلان یقرئک السلام، ج:5، ص:2307، رقم الحدیث:5898، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة دمشق)
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
"وإذا أمر رجلا أن يقرأ سلامه على فلان يجب عليه ذلك، كذا في الغياثية."
(كتاب الكراهية، الباب السابع، ج:5، ص:326، ط:رشيدية كوئته)
فتاویٰ شامی میں ہے:
"ولو قال لآخر: أقرئ فلانا السلام يجب عليه ذلك.
وفي الرد: (قوله يجب عليه ذلك) لأنه من إيصال الأمانة لمستحقها، والظاهر أن هذا إذا رضي بتحملها تأمل.
ثم رأيت في شرح المناوي عن ابن حجر التحقيق أن الرسول إن التزمه أشبه الأمانة وإلا فوديعة اهـ. أي فلا يجب عليه الذهاب لتبليغه كما في الوديعة قال الشرنبلالي: وهكذا عليه تبليغ السلام إلى حضرة النبي صلى الله عليه وسلم عن الذي أمره به؛ وقال أيضا: ويستحب أن يرد على المبلغ أيضا فيقول: وعليك وعليه السلام اهـ. ومثله في شرح تحفة الأقران للمصنف، وزاد وعن ابن عباس يجب اهـ. لكن قال في التتارخانية ذكر محمد حديثا يدل على أن من بلغ إنسانا سلاما عن غائب كان عليه أن يرد الجواب على المبلغ أولا ثم على ذلك الغائب اهـ. وظاهره الوجوب تأمل."
(كتاب الحظر والإباحة، ج:6، ص:415، ط:ایج ایم سعید)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144602100701
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن