بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

کسی کو شراب خانے کے لئے دکان کرایہ پر دینے کی شرعی حیثیت


سوال

ایک صاحب کی ملکیت میں ایک دکان ہے،وہ انہوں نےجن لوگوں کوکرائےپردی ہوئی ہے،وہ اس میں شراب خانہ چلاتےہیں،اوران صاحب کواس بات کاعلم بھی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اس دکان کی جواجرت بطورکرایہ انہیں ماہانہ ملتاہے وہ حلال ہےیانہیں؟

اورکیامالک مکان اورکرایہ دارمسلمان ہےیانہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں کسی ایسے شخص کواپنی دکان کرایہ پردیناجس کامقصداس میں حرام وناجائزاشیاءکاکاروبارکرنااورشراب خانہ بنانااورچلاناہوشرعاًناجائزہے،اورعلم ہونےکےباوجودشراب خانہ کےمکان کرایہ پردیناتعاون علی الاثم ہے، جس کی ممانعت قرآن کریم سے ثابت ہے،لہذااس سےحاصل ہونےوالاکرایہ مکروہ تحریمی ہے۔البتہ محض اس عمل کی وجہ سے ان کو غیر مسلم نہیں کہا جائے گا۔

تفسیر روح المعانی میں ہے:

"قوله تعالى: ولا تعاونوا على الإثم والعدوان فيعم النهي كل ما هو من مقولة الظلم والمعاصي، ويندرج فيه النهي عن التعاون على الاعتداء والانتقام. وعن ابن عباس رضي الله تعالى عنهما وأبي العالية أنهما فسرا الإثم بترك ما أمرهم به وارتكاب ما نهاهم عنه، والعدوان بمجاوزة ما حده سبحانه لعباده في دينهم وفرضه عليهم في أنفسهم، وقدمت التحلية على التخلية مسارعة إلى إيجاب ما هو المقصود بالذات، وقوله تعالى: واتقوا الله أمر بالاتقاء في جميع الأمور التي من جملتها مخالفة ما ذكر من الأوامر والنواهي، ويثبت وجوب الاتقاء فيها بالطريق البرهاني."

(سورة المائدة، ج: 3، ص: 230، ط: دار الكتب العلمية بيروت)

المحیط البرہانی میں ہے:

"قال: وإذا استأجر الذمي من المسلم بيعة يصلَي فيها فإن ذلك لا يجوز؛ لأنه استأجرها ليصلي فيها وصلاة الذميّ معصية عندنا وطاعة في زعمه، وأي ذلك ما اعتبرنا كانت الإجارة باطلة؛ لأن الإجارة على ما هو طاعة ومعصية لا يجوز، وكذلك المسلم إذا استأجر من المسلم بيتاً ليجعلها مسجداً يصلي فيها المكتوبة أو النافلة، فإن الإجارة لا تجوز في قول علمائنا، وعند الشافعي تجوز وهذا لأنها وقعت على ما هو طاعة، فإن تسليم الدار ليصلي فيها طاعة ومن مذهبنا أن الإجارة على ما هو طاعة لا تجوز، وعنده تجوز.

وكان هذا بمنزلة ما لو استأجر رجلاً للآذان أو الإمامة لا يجوز عندنا؛ لأنه طاعة، وعند الشافعي يجوز فكذلك هذا وكذلك الذمي إذا استأجر رجلاً من أهل الذمة ليصلي بهم فإن ذلك لا يجوز لأن هذه معصية عندنا وطاعة في دينهم وأيّ ذلك ما اعتبرنا لا تجوز هذه الإجارة."

(كتاب الاجارة، ‌‌الفصل الخامس عشر: في بيان ما يجوز من الإجارات، وما لا يجوز، ج:7، ص:482، ط:دار الكتب العلمية)

جامع الفتاوی میں ہے:

”سوال:۔ایک مسلمان شراب کا  ٹھیکہ نیلام لے چکا ہے، دو ہندوں کو بھی شریک کر چکا ہے ہندو شریک کو اگر کوئی مسلمان دکان کرائے پر دے دے تومالک دکان گناہ گار ہے یا نہیں؟

جواب:۔ مسلمان کے لیے شراب کی تجارت حرام ہے کسی حال میں بھی جائز نہیں ہو سکتی ہندوؤں  کو شریک کر لینے سے اس کا گناہ مرتفع نہیں ہو سکتا، شراب فروشی کے لیے مسلمان یا مسلمان کے شریک کو دکان کرئےپر دینا بھی مکروہ تحریمی ہے۔

ہاں اگر مسلم کو خالص اس کی تجارت کے لیے دکان کرائے پر دی جائے اور وہ شراب فروخت کر دے تو مضائقہ نہیں“۔

(جامع الفتاوی، ج:6، ص:472، ط:ادارہ تالیفات اشرفیہ)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604100019

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں