میرا ایک دوست افریقا میں کاروبار کرتا ہے، اس نے مجھے پیسے دیئے، کہ مجھے پاکستان سے ٹی شرٹ خرید کر بھیجے، میں نے ایک آدمی سے مال خریدا، مال خریدتے ہوئے میں نے اس سے یہ پوچھا، کہ آیا یہ کمپنی کا وہ مال ہے ، جو کمپنی باہر بھیجتی ہے، تو انہوں کہا کہ یہ وہی مال ہے جو کمپنی باہر ممالک بھیجتی ہے، تو میں نے پوچھا کہ وہ مال آپ کے پاس کس طرح آیا، تو انہوں نے کہا،کہ میرے پاس چوری کے ذریعے پہنچا۔
اب پوچھنا یہ ہے کہ کمپنی سے چوری شدہ مال خریدنا کیسا ہے؟کیا ہم اس کو آگے بیچ سکتے ہیں ،جبکہ اس میں ہمیں یہ بھی شک ہوتا ہے ، کہ یہ مال کمپنی کا نہیں ہوسکتا اور اس شخص نے جھوٹ بول کر کمپنی کی طرف منسوب کیا ہو ؟
واضح رہےکہ قرآن و حدیث میں پاکیزہ اور حلال رزق کمانے اور کھانے کی بہت زیادہ ترغیب دی گئی ہے جبکہ حرام اور مشتبہ چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے، حدیث شریف میں جان بوجھ کر چوری کا سامان خریدنے والے کو چوری میں شریک ہونے والا بتایا گیا ہے، اس لئے جان بوجھ کرچوری کا سامان خریدنا ہر گز جائز نہیں ہے،نیز چوری کے مال کا اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا مالک نہیں بنتا، خواہ وہ مال کتنی ہی ہاتھوں میں چلاجائے۔
صورتِ مسئولہ میں جب سائل کویہ معلوم ہے، کہ یہ مال چوری کا ہے، اور بیچنے والا خود بھی اس بات کا اقرار کررہا ہے، تو سائل کے لیے یہ مال خریدنا جائز نہیں ہے، نیز سائل کا کہنا کہ ہمیں شک ہوتا ہے ،کہ یہ مال کمپنی کاہے بھی یانہیں ،تو محض اس شک کی وجہ سے سائل کے لیے اس مال کی خرید وفروخت جائز نہیں ، جبکہ بیچنے والا خود بھی کہہ رہا ہے کہ یہ مال چوری کا ہے، لہذا سائل کے لیے ایسا مال خریدنے سے بچنا لازم ہے۔
تفسير البغوي میں ہے:
"قوله تعالى:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُلُوا مِنْ طَيِّباتِ: حلالات ما رزقناكم.
«121» أخبرنا عبد الواحد المليحي أخبرنا أبو محمد عبد الرحمن بن أبي شريح، أخبرنا أبو القاسم عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي، أخبرنا علي بن الجعد أخبرنا فضيل بن مرزوق عن عدي بن ثابت، عن أبي حازم عن أبي هريرة قال:قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «يا أيها الناس إن الله طيب [و] لا يقبل إلا الطيب، وإن الله أمر المؤمنين بما أمر به المرسلين فقال: يا أيها الرسل كلوا من الطيبات واعملوا صالحا [المؤمنون: 51] ، يا أيها الذين آمنوا كلوا من طيبات ما رزقناكم، ثم ذكر الرجل يطيل السفر [أشعث أغبر] يمد يديه إلى السماء: يا رب يا رب ومطعمه حرام ومشربه حرام وملبسه حرام وغذي بالحرام فأنى يستجاب لذلك»"
(سورۃ البقرۃ، الآیة:172، ج:1، ص:200، ط:دار إحياء التراث العربي -بيروت)
عمدة القاري میں ہے:
"وقال الخطابي: كل شيء يشبه الحلال من وجه والحرام من وجه هو شبهة، والحلال اليقين: ما علم ملكه يقينا لنفسه، والحرام البين ما علم ملكه لغيره يقينا، والشبهة: ما لا يدري أهو له أو لغيره، فالورع اجتنابه."
(باب تفسير المشبهات، ج:11، ص:166، ط:دار إحياء التراث العربي)
المستدرك على الصحيحينمیں ہے:
2284 - حدثنا محمد بن صالح بن هانئ وإبراهيم بن محمد بن حاتم الزاهد، قالا: حدثنا الحسن بن عبد الصمد بن عبد الله بن رزين السلمي، حدثنا يحيى بن يحيى، أخبرنا مسلم بن خالد الزنجي، عن مصعب بن محمد المدني، عن شرحبيل مولى الأنصار، عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: "من اشترى سرقة، وهو يعلم أنها سرقة، فقد شرك في عارها وإثمهاشرحبيل هذا: هو ابن سعد الأنصاري، قد روى عنه مالك بن أنس بعد أن كان يسيء الرأي فيه، والحديث صحيح، ولم يخرجاه."
(کتاب البیوع، ج:3، ص:197، ط:دار الرسالة العالمية)
الدر المختارمع رد المحتار میں ہے:
الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لا يطيب له ولا للمشتري منه، بخلاف البيع الفاسد فإنه لا يطيب له لفساد عقده ويطيب للمشتري منه لصحة عقده. وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعدد مع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال، وسنحققه ثمة.
قال في الرد: وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك."
(كتاب البيوع، باب البیع الفاسد، مطلب: الحرمة تتعدد، ج:7، ص:306، ط:رشیدیه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602101524
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن