بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1445ھ 01 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کس تصویر کی موجودگی میں نماز نہیں پڑھ سکتے؟


سوال

تصویر کی شرعی تعریف اور حکم کیا ہے؟یعنی کس تصویر کو ہم تصویر کہیں گے اور کس تصویر کی موجودگی میں نماز نہیں پڑھ سکتے؟ 

جواب

تصویر ایک جانی پہچانی حقیقت ہے،ہر ایک اس کو جانتا اور سمجھتا ہے،لہذا عام لوگ جسے تصویر کہتے ہیں،شریعت بھی اس کو تصویر کہتی ہے،لہذا تصویر کی جو بھی تعریفیں دستیاب ہیں،ان میں سے بعض کو تعریف کے بجاۓ تمثیل کہنا زیادہ مناسب ہے۔

مفردات میں اما م رغب اصفہانی نے  صورت کے بیان میں لکھا ہے:

"الصورة: ‌ما ‌ينتقش ‌به ‌الأعيان، ويتميز بها غيرها، وذلك ضربان: أحدهما محسوس يدركه الخاصة والعامة، بل يدركه الإنسان وكثير من الحيوان، كصورة الإنسان والفرس، والحمار بالمعاينة، والثاني: معقول يدركه الخاصة دون العامة، كالصورة التي اختص الإنسان بها من العقل، والروية، والمعاني التي خص بها شيء بشيء."

(كتاب الصاد،صور،497، دار القلم، الدار الشامية)

ترجمہ: کسی عین یعنی مادی چیز کا ظاہری نشان اور خط وخال جس سے اسے پہچانا جا سکے،اور دوسری چیزوں سے اس کا امتیاز ہوسکے،یہ دو قسموں پر ہے:

1۔محسوس جن کا ہر خاص و عام ادراک کرسکتا ہو، بلکہ انسان کے علاوہ بہت سے حیوانات بھی  اس کا ادراک کرلیتے ہیں، جیسے انسان،گھوڑا گدھا وغیرہ کی صورتیں دیکھنے سے پہچانی جاسکتی ہے۔

2۔صورت  عقلیہ جس کا ادراک خاص  خاص لوگ ہی کرسکتے ہوں،عوام کے فہم سے بالاتر ہوں،انسانی عقل و فکر شکال و صورت،یا وہ معانی یعنی خاصےجو ایک چیز میں دوسروں سے الگ پاۓ جاتے ہیں۔

احادیث میں جہاں صورت کا لفظ آیا ہے، اس سے مراد تصویر ہے، اور تصویر سے مراد مطلق تصویر نہیں ہے،بلکہ جاندار کی تصویر ہے، حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے حوالے سے فیض الباری میں ہے:

"قوله: (إن الذين يصنعون هذه الصور) ولينظر في هذا اللفظ، ليتضح ‌أن ‌لفظ ‌الصورة ‌هل يختص بالحيوانات فقط، أو يستعمل في غيرها أيضا والظاهر أن أغلب استعماله في الحيوانات..... فدل على أن الصورة في ذهن الشارع تستعمل للحيوانات، وإلا فلا بأس بصورة الشجرة."

ترجمہ: اس لفظ (صورت) میں اس پہلو سے  غور کرنا چاہیے کہ اس کا استعمال صرف جاندار کے ساتھ خاص ہے، یا اس کے علاوہ بھی اس کا استعمال ہوتا ہے؟ ظاہر یہ ہے کہ اس کا غالب استعمال جانداروں کے لیے ہوتا ہے، معلوم ہوا کہ شارع کی مراد اس لفظ سے جانداروں کی تصویر ہوتی ہے، ورنہ درخت کی تصویر بنانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔

حاصل یہ ہے کہ: تصویر عربی زبان کا لفظ ہے ،جس کا معنی  صورت گری ، صورت بنانا ہے، اردو میں  'تصویر'  نقش  ، شبیہ اور  کیمرے کے فوٹو  کو کہتے ہیں، کتب ِ فقہ میں اس کے لیے  اکثر  'صورۃ' کا لفظ مطلق  آتا ہے ، اور کبھی جاندار و غیر جاندار میں فرق کے لیے جاندار کی تصویر کو 'تمثال'  اور  اس کے علاوہ ہر قسم کی تصویر کو 'صورۃ'  سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

تصویر کا شرعی حکم یہ ہے کہ جمادات اور نباتات ، جیسے آسمان، زمین، پہاڑ، درخت ، پھول وغیرہ کی تصویر بنانا جائز ہے، اور ایسی تصاویر کی موجودگی میں نماز اداکرنا جائز ہے، اس سے نماز پر کوئی اثر نہیں ہوتا،  البتہ   ایسی تصویر  بنانا جس میں جاندار ( حیوان یا انسان) ہو، حرام و ناجائز  ہے، حدیث شریف میں ہے:

"كنت عند ابن عباس وهم يسألونه، ولا يذكر النبي صلى الله عليه وسلم حتى سئل، فقال: سمعت محمدا صلى الله عليه وسلم يقول: (‌من ‌صور صورة في الدنيا كلف يوم القيامة أن ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ)."

(كتاب اللباس، باب: من صور صورة كلف يوم القيامة أن ينفخ فيها الروح، وليس بنافخ، ج:5، ص:2223، رقم:5618، ط:دار ابن كثير) 

ترجمہ: “، ایک دوسری حدیث میں ہے کہ ”جو شخص دنیا میں کوئی (جاندار) کی تصویر بنائے گا، قیامت میں اُس کو حکم دیا جائے گا کہ وہ اُس میں روح ڈالے، لیکن وہ ہر گز نہیں ڈال سکے گا“ (اس پر اُس کو شدید عذاب ہوگا)۔

 اور   اگر نماز کی جگہ پر  جان دار کی تصویر موجود ہو  تو اس   کی موجودگی میں نماز ادا کرنا درست نہیں ہے ، اگر نماز ادا کر لی تو وہ مکروہ تحریمی  ہوگی اور وقت کے اندر اس کا اعادہ واجب ہوگا،  تا ہم اگر   وہ تصویر اتنی چھوٹی ہو کہ اس  کو دیکھنے سے اس کی ساخت واضح نہ  ہو، یا پھر وہ تصویر بڑی ہو، لیکن اس کا سر یا چہرہ مٹا دیا گیا ہو، یا اس تصویر کو کپڑے  وغیرہ  سے چھپا دیا گیا ہو تو  ان تمام صورتوں میں ایسی تصویر کی موجودگی میں نماز بلا کراہت درست ہو جاتی ہے۔

"الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"التصوير لغة: صنع الصورة. وصورة الشيء هي هيئته الخاصة التي يتميز بها عن غيره. وفي أسمائه تعالى: المصور، ومعناه: الذي صور جميع الموجودات ورتبها، فأعطى كل شيء منها صورته الخاصة وهيئته المفردة، على اختلافها وكثرتها.

والتصوير أيضا: صنع الصورة التي هي تمثال الشيء، أي: ما يماثل الشيء ويحكي هيئته التي هو عليها، سواء أكانت الصورة مجسمة أو غير مجسمة، أو كما يعبر بعض الفقهاء: ذات ظل أو غير ذات ظل ...

والتصوير والصورة في اصطلاح الفقهاء يجري على ما جرى عليه في اللغة."

(تصوير، ج:12، ص:92-93، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

"فتح الباري لابن حجرؒ " میں ہے:

"قوله ‌من ‌صور ‌صورة في الدنيا كذا أطلق وظاهره التعميم فيتناول صورة ما لا روح فيه لكن الذي فهم بن عباس من بقية الحديث التخصيص بصورة ذوات الأرواح من قوله كلف أن ينفخ فيها الروح فاستثنى ما لا روح فيه كالشجر."

(كتاب اللباس، باب من لعن المصور، ج:10، ص:394، ط: دار المعرفة)

الموسوعة الفقهية الكويتية" میں ہے:

"لا بأس بتصوير الأشياء التي يصنعها البشر، كصورة المنزل والسيارة والسفينة والمسجد وغير ذلك اتفاقا؛ لأن للإنسان أن يصنعها، فكذلك له أن يصورها...

لا بأس بتصوير الجمادات التي خلقها الله تعالى - على ما خلقها عليه - كتصوير الجبال والأودية والبحار، وتصوير الشمس والقمر والسماء والنجوم، دون اختلاف بين أحد من أهل العلم، إلا من شذ...

جمهور الفقهاء على أنه لا بأس شرعا بتصوير الأعشاب والأشجار والثمار وسائر المخلوقات النباتية، وسواء أكانت مثمرة أم لا، وأن ذلك لا يدخل فيما نهي عنه من التصاوير."

(تصوير، ج:12، ص:97-98، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت) 

و فيه أيضاّ:

"أنه يحرم تصوير ذوات الأرواح مطلقا، أي سواء أكان للصورة ظل أو لم يكن. وهو مذهب الحنفية والشافعية والحنابلة."

(تصوير، ج:12، ص:102، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت) 

"رد المحتار" میں ہے:

"وظاهر كلام النووي في شرح مسلم الإجماع على تحريم تصوير الحيوان، وقال: وسواء صنعه لما يمتهن أو لغيره، فصنعته حرام بكل حال لأن فيه مضاهاة لخلق الله تعالى، وسواء كان في ثوب أو بساط أو درهم وإناء وحائط وغيرها اهـ فينبغي أن يكون حراما لا مكروها إن ثبت الإجماع أو قطعية الدليل بتواتره اهـ كلام البحر ملخصا. وظاهر قوله فينبغي الاعتراض على الخلاصة في تسميته مكروها.

قلت: لكن مراد الخلاصة اللبس المصرح به في المتون، بدليل قوله في الخلاصة بعد ما مر: أما إذا كان في يده وهو يصلي لا يكره وكلام النووي في فعل التصوير، ولا يلزم من حرمته حرمة الصلاة فيه بدليل أن التصوير يحرم؛ ولو كانت الصورة صغيرة كالتي على الدرهم أو كانت في اليد أو مستترة أو مهانة مع أن الصلاة بذلك لا تحرم، بل ولا تكره لأن علة حرمة التصوير المضاهاة لخلق الله تعالى، وهي موجودة في كل ما ذكر. وعلة كراهة الصلاة بها التشبه وهي مفقودة فيما ذكر كما يأتي، فاغتنم هذا التحرير."

(كتاب الصلاة، باب ما يفسد اصلاة و ما يكره فيها، ج:1، ص:647، ط:سعيد) 

و فيه أيضاّ:

"فالحاصل أن من ترك واجبا من واجباتها أو ارتكب ‌مكروها ‌تحريميا لزمه وجوبا أن يعيد في الوقت، فإن خرج أثم ولا يجب جبر النقصان بعده. فلو فعل فهو أفضل. اهـ."

(كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:64، ط:سعيد) 

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144402101099

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں