بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کس سفر میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے؟


سوال

سفر میں روزہ نہ رکھنے کی رعایت دی گئی ہے، لیکن کتنے کلومیٹر کی مسافت کے بعد یہ رعایت حاصل ہوگی؟

جواب

 سفر کی مسافت کی مقدار  اپنے شہر یا بستی سے باہر کم سے کم اڑتالیس۴۸ میل  (تقریبًا 77.24 کلومیٹر) یا اس  سے زیادہ ہے ، پس جس شخص کا ارداہ سفر شرعی  کا ہو، تو شہر کی حدود سے نکلنے  کے بعد روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کا اسے  اختیار ہوگا ،  البتہ اگر سفر کے دوران روزہ رکھنے کی سہولت ہو، دشواری نہ  ہو  تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے اور اگر روزہ رکھنے میں مشقت اور  دشواری ہو،  تو اس صورت میں روزہ نہ رکھے، بعد میں قضا کر لے۔ اگر سفر کی مسافت ۴۸ میل سے کم ہو  تو اس صورت میں روزہ رکھنا لازم ہوگا۔

نیز   مسافر  شرعی  جب تک سفر میں ہوگا ،مقیم ہونے یا اقامت کی نیت کرنے تک اسے روزہ افطار کرنے کی اجازت ہوگی بعد میں قضا واجب ہوگی ۔

ملحوظ  رہے  جو  شخص صبح  صادق  کے وقت سفر میں نہ ہو اسے  روزہ چھوڑنے کی شرعًا ا  جاز ت نہیں،  بلکہ روزہ کی نیت کرنا لازم  ہے، اگرچہ دن میں سفر کرنے کا  پختہ ارادہ ہو۔

تنوير الابصار مع  الدر المختار میں ہے:

(لمسافر) سفرا شرعيا ولو بمعصية...(الفطر) ... (ويندب لمسافر الصوم) لآية - {وأن تصوموا} [البقرة: 184]- والخير بمعنى البر لا أفعل تفضيل (إن لم يضره) فإن شق عليه أو على رفيقه فالفطر أفضل لموافقته الجماعة.

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: سفرًا شرعيًّا) أي مقدرا في الشرع لقصر الصلاة ونحوه وهو ثلاثة أيام ولياليها."

(  كتاب  الصوم، فصل في الععوارض المبيحة لعدم الصوم، ٢ / ٤٢١ - ٤٢٢ - ٤٢٣، ط: دار الفكر)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:

"بخلاف السفر فإنه ليس بعذر في اليوم الذي أنشأ السفر فيه ولا يحل له الإفطار وهو عذر في سائر الأيام كذا في الظهيرية وأشار باللام إلى أنه مخير بين الصوم والفطر لكن الفطر رخصة والصوم عزيمة فكان أفضل إلا إذا خاف الهلاك فالإفطار واجب، كذا في البدائع."

( كتاب الصوم، فصل في عوارض الفطر في رمضان، ٢ / ٣٠٣، ط: دار الكتاب الإسلامي )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں