بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کریانہ والوں کا زکوۃ اندازے سے دینا


سوال

ہماری کریانہ کی دکان ہے، دکان میں ایسی اشیاء ہیں زکوۃ کے سال پر ان کی گنتی کرنا بہت مشکل ہے، کیا اگر پچھلے سال دس لاکھ کی زکوۃ دی ہو تو اس سال تخمینہ لگاکر بارہ یا تیرہ لاکھ روپے کی زکوۃ ادا کرسکتے ہیں؟

جواب

پہلی کوشش یہی کرنی چاہیے کہ زکات پورا حساب کر کے دی جائے، اندازہ  کر کے زکوۃ دینا مناسب نہیں ہے، اگر کسی وجہ سے پورا حساب کرنا ممکن نہ ہو تو احتیاطاً زیادہ سے زیادہ کا اندازہ لگا کر زکات ادا کردینی چاہیے؛ تاکہ زکات کم ادا نہ ہو۔ 

اگر اندازہ  کر کے زکات دی گئی اور اندازہ  کم رہا (یعنی اداکردہ مقدار واجب مقدار سے کم رہی) تو جتنی مقدار ادا کردی گئی وہ تو ادا ہو جائے گی، لیکن جو مقدار ادا کرنے سے رہ گئی اس کا ادا کرنا ذمہ میں باقی رہ  جائے گا۔

مبسوط سرخسی میں ہے:

"فإن الاجتهاد في الأحكام الشرعية ‌جائز ‌للعمل به وذلك عمل بغالب الرأي ثم جعل مدركا من مدارك أحكام الشرع وإن كان لا يثبت به ابتداء، فكذلك التحري مدرك من مدارك التوصل إلى أداء العبادات، وإن كانت العبادة لا تثبت به ابتداء."

(کتاب التحری ،جلد:10، صفحہ: 186، طبع:  دارالمعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509101352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں