بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرپٹو کرنسی کے متعلق چند اشکالات اور اس کا جواب


سوال

 کرپٹو کرنسی کو بعض علماء جائز اور بعض علماء ناجائز قرار دے رہے ہیں، کچھ یہ کہتے ہیں کہ اس کی کوئی حقیقت نہیں اور گورنمنٹ اس کی ذمہ داری نہیں لیتی  ،جبکہ روپیہ کی ذمہ داری ليتي ہے، اور آپ کو اس کے عوض سونا دیتی ہے، یہاں پر یہ سوال ہے کہ اگر  آپ بینک جائیں اور سونا طلب کریں ،آپ کو نہیں ملے گا ، تو پھر یہ بھی فرضی بات ہوئی اور دوسرا یہ کہ ہمارے پاس اب تجارت ڈالر میں ہوتی ہے اور ڈالر بھی تو اکاؤنٹنگ سے ہوتی ہے جس میں  نوٹ ضروری نہیں بینک سے ڈریکٹ فارورڈ ہوتا ہے اور یقیناً آپ یہاں پر یہ کہیں گئے کہ ڈالر کو آپ نوٹ میں ایکسچینج کر سکتے ہیں، تو کرپٹو کو بھی پیسوں میں  ایکسچینج کر سکتے ہیں؟براہِ کرم راہ نمائی فرمائیں ۔

جواب

جواب سے پہلے بطور تمہید کے چند باتیں ذکر کی جاتیں ہیں :

1)ہماری معلومات کے مطابق کرپٹو کرنسی کا وجود نہ حسی طور پر ہے ،نہ ہی ڈیجیٹل طور پر اس کا وجود ہے ،بلکہ محض ہندسوں کا کھاتہ میں اندراج ہے ،اور اسی کو کرنسی تصور کر لیا گیا ہے ،مثلا دس (10) بٹ کوائن (ایک قسم کی کرپٹو کرنسی ہے) زید نے بکر سے خرید لیے، اس کا مطلب اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ کھاتے  میں یہ لکھ دیا گیا کہ زید نے بکر سے دس بٹ کوائن خرید لیے اور زید کے نام سے بکر کے نام پر منتقل ہوگئے، نہ خارج میں کسی مادی  کرنسی کا ان دونوں کے درمیان تبادلہ ہوا اور نہ ہی کسی ڈیجٹل  کرنسی یا کوائن کا ان دونوں کے موبائل یا کمپیوٹر کے درمیان تبادلہ ہوا۔

2)کسی بھی چیز کے مال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ  حسی اور مادی طور  پر اس کا وجود ہو ،پس وہ چیز جس کا حسی  اور مادی طور پر وجود نہیں ہے، وہ شرعاً مال نہیں ہوگا ۔

3)جو شریعت کی نگاہ میں  مال نہیں ہے،اس کی خرید و فروخت  باطل ہے ،اس کا حکم یہ ہے  بائع کی ثمن (پیسے)پر اور مشتری کی مبیع (خریدی ہوئی چیز)پر ملکیت ثابت نہیں ہوگی ، اور اس سے حاصل ہونے والا نفع سود کے حکم میں ہوگا ،بلکہ بائع پر لازم ہے مشتری کو ثمن اور مشتری پر لازم ہے کہ وہ بائع کو مبیع واپس کردے۔

4)کسی بھی ملک کی کرنسی جو نوٹ یا سکوں کی صورت میں ہوتی ہے ،اس کی حیثیت ثمن اصطلاحی اور عرفاً مال کی ہے ،یہ سمجھنا کہ اس کے پیچھے سونا ہوتا ہے ،اور یہ نوٹ اس کی رسید ہے،یہ بات صحیح نہیں ہے ،اس لیے  کہ اس سے بہت سے معاملات اور عقود  کا باطل اور فاسد ہونا لازم آئے گا ،مثلاً بیع صرف اس میں ثمن کی بیع ثمن سے ہوتی ہے اس لیے اس میں ادھار ناجائز ہے ،نقدین کا تقابض بھی ضروری ہے ،سونا اور چاندی کو نوٹوں سے خریدنا باتفاق جائز ہے ،اور بیع سلم اور عقد مضاربت میں یہ ضروری ہے کہ احد البدلین  (راس المال)ثمن اور نقد ہو ،اگر کاغذی نوٹوں کو قائم مقام نقد اور اور ثمن کا بدل قرار نہیں دیا جائے تو تمام عقد صرف سونا چاندی کی خرید و فروخت ،عقد مضاربت ،بیع سلم وغیرہ کا باطل اور فاسد ہونا لازم آتا ہے،حالانکہ دنیا کے تمام اہل علم اس بات پر متفق ہیں کہ کاغذی نوٹوں  سے بیع صرف اور بیع سلم اور عقد مضاربت وغیرہ سب  جائز ہیں،نیز  فقہاء نے جو دراہم اور دنانیر کے سلسلہ میں ثمنیت کی جو علامات بتلائی ہیں وہ کرنسی نوٹ میں بھی پائی جاتے ہیں مثلاً متعین کرنے سے متعین نہ ہونا ،اور اشارہ سے وہی  نوٹ كا  لازم نہ ہونا ،اسی طرح جنس کے متحد ہونے کی صورت میں برابری اور تقابض کا ضروری ہونا (ملخص از   جواہر الفتاوی)،پس سائل کا نوٹ کو رسید اور  اس کے پیچھے سونے کو  سمجھنا پھر   کرپٹو  کرنسی  کو اس پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ۔

5)کسی بھی کرنسی کو اگر مشتری تک  بینک  یا موبائل کے ذریعہ  منتقل کیا جائے  ،تو  اس کا ہر گز مطلب یہ نہیں ہے کہ حقیقت میں کوئی تبادلہ نہیں ہوا ،بلکہ کمپیوٹر میں ڈیجیٹل تبادلہ کے ساتھ ساتھ  حقیقی تبادلہ  بھی    ہوتا ہے،نیز موبائل یا کمپیوٹر وغیرہ میں ڈیجٹ ( هندسوں ) کی صورت میں جومال  نظر آرہا ہوتا ہے وہ حقیقت میں مال نہیں ہوتا ،بلکہ   یہ حقیقی مال کا وثیقہ ہوتا ہے۔

مذکورہ تمہید کی رو سے چوں کہ کرپٹو کرنسی کا حقیقت میں حسی طورپر  وجود ہی نہیں ،اس لیے یہ مال نہیں ہے ،لہذا  کرپٹو کرنسی کے ذریعہ کسی چیز کو خرید  نا،یا کسی چیز کے ذریعہ کرپٹو کرنسی  کو خریدنا جائز نہیں ہے ،یہ   بیع باطل   ہے، اس کا حکم یہ ہے  بائع کی ثمن (پیسے)پر اور مشتری کی مبیع (خریدی ہوئی چیز)پر ملکیت ثابت نہیں ہوگی ، اور اس سے حاصل ہونے والا نفع سود کے حکم میں ہوگا ،بلکہ بائع پر لازم ہے مشتری کو ثمن واپس کر دے۔جبکہ نوٹ حسی طور پر موجود ہے ،لہذا  یہ مال ہے ،حکومت  کا  اس کی قیمت ( زیادہ یا کم)  کو   انتظامی وجوہات کے تحت طے کر نا درست ہے ،پس کرپٹو کرنسی کو نوٹ پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ،جہاں تک بات کرپٹو کرنسی کو  ڈالر یا دیگر کرنسیوں کی منتقلی پر قیاس کرنے کی ہےتو ڈالر یا دیگر کرنسیاں حقیقت میں خارج میں موجود ہیں اور ان کا تبادلہ  کمپیوٹر یا موبائل میں ہونے کے ساتھ ساتھ بینک اور تبادلہ کرنے والی  کمپنیاں آپس میں  تبادلہ حقیقت میں بھی کرتی ہیں ۔جبکہ کرپٹو کرنسی کا تبادلہ  ڈیجیٹل اور   نہ ہی حقیقت میں  ہوتا ہے،نیز کرپٹو کرنسی جو اسکینج کی صورت میں ملتی ہے ،اس کی حقیقت یہ ہے کرپٹو کا حامل اس کو فروخت کرتا ہے اور خریدنے والا اس کو اس کے بدلے پیسے دیتا ہے تو یہ بات گذر چکی ہے کہ یہ بیع باطل ہے ،اس کا استعمال اور اس سے نفع  کمانا جائز نہیں ہے  ،بلکہ واپس کرنا ضروری ہے،جبکہ دیگر کرنسیاں چوں کہ ان کا وجود خارج میں اور ڈیجٹ ( هندسوں ) اس کی نمائندگی ہیں ،اس لیے ان کو فروخت کرکے ان کا ایکسچینج  جائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: وعبارة الصيرفية هكذا سئل عن بيع الخط قال: لا يجوز؛ لأنه لا يخلو إما إن باع ما فيه أو عين الخط لا وجه للأول؛ لأنه بيع ما ليس عنده ولا وجه للثاني؛ لأن هذا القدر من الكاغد ليس متقوما بخلاف البراءة؛ لأن هذه الكاغدة متقومة. "

(کتاب البیوع، ج :4،ص:517،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"البيع نوعان باطل وفاسد فالباطل ما لم يكن محله مالا متقوما كما لو اشترى خمرا أو خنزيرا أو صيد الحرم أو الميتة أو دما مسفوحا فهو لا يفيد الملك."

(کتاب البیوع،ج:3،ص:146،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"(بطل بيع ما ليس بمال)۔۔(والمعدوم كبيع حق التعلي) أي علو سقط؛ لأنه معدوم. (قوله والمعدوم كبيع حق التعلي) قال في الفتح: وإذا كان السفل لرجل وعلوه لآخر فسقطا أو سقط العلو وحده فباع صاحب العلو علوه لم يجز؛ لأن المبيع حينئذ ليس إلا حق التعلي، وحق التعلي ليس بمال؛ لأن المال عين يمكن إحرازها وإمساكها ولا هو حق متعلق بالمال بل هو حق متعلق بالهواء، وليس الهواء مالا يباع والمبيع لا بد أن يكون أحدهما."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد، ج:5،ص:50،ط:سعید)

فتاوی شامی میں ہے:

"وقدمنا أول البيوع تعريف المال بما يميل إليه الطبع ويمكن ادخاره لوقت الحاجة، وأنه خرج بالادخار، المنفعة فهي ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص كما في التلويح، فالأولى ما في الدرر من قوله المال موجود يميل إليه الطبع إلخ فإنه يخرج بالموجود المنفعة فافهم. ولا يرد أن المنفعة تملك بالإجارة؛ لأن ذلك تمليك لا بيع حقيقة، ولذا قالوا: إن الإجارة لا بيع المنافع حكما: أي إن فيها حكم البيع وهو التمليك لا حقيقته، فاغتنم هذا التحرير."

(کتاب البیوع، باب البیع الفاسد ،ج :5،ص:50،سعید)

 فتاوی شامی میں ہے:

"والمال كما صرح به أهل الأصول ما يتمول ويدخر للحاجة، وهو ‌خاص ‌بالأعيان فخرج به تمليك المنافع. "

(کتاب الزکوۃ، ج:2،ص:257،ط:سعید)

مولانا عبد السلام چاٹگامی صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

"شرعی تجارتی اصول اور قوانین پر غور کرنے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ کرنسی نوٹ (کاغذی سکے)قائم مقام ثمن اور اصطلاحی ثمن ہیں ،جس طرح حقیقی زر (سونا و چاندی)کو زکوۃ اور صدقات واجبہ میں اور معاملات کے اندر احد البدلین کے معاوضہ میں استعمال کرنا درست ہے اسی طرح کاغذی سکوں کو زکوۃ و صدقہ و دیگر معاملات میں استعمال کرنا جائز جیسا کہ اس کا رواج بھی ہے،کاغذی سکہ ہی عرصہ دراز سے اکثر ممالک میں اور تمام معاملات میں گردش کر رہا ہے،بیع مطلق ،بیع مقایضہ ،بیع صرف سے لے کر بیع سلم ،مضاربت اجارہ ،ہر قسم کے لین دین میں بھی بطور عوض احد البدلین کی حیثیت سے کاغذی سکوں (ڈالر ،پونڈ،روپے ،ٹاکہ،دینار،درہم،ریال وغیرہ )کو استعمال کیا جاتا ہے ،اور کسی فریق کے ذہن و خیال میں اس بات کا تصور پیدا نہیں ہوتا کہ یہ حوالہ یا رسید ہے مجھے اس کے بدلہ میں سونا ملے گا ،چاندی ملے گی پھر بازار میں جا کر اسے بیچنا پڑے گا ۔"

(جواہر الفتاوی ،ج:1،ص:417،ط:اسلامی کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں