ایک آدمی عدنان نے اپنی دکان عابد کو 50ہزار ایڈوانس اور 25 ہزار ماہانہ کرایہ پر دیا ،پھر عابد نے اسی دکان کو مزین کرکے حسن کو 2 لاکھ ایڈوانس اور 40 ہزار ماہانہ کرایہ پر دیا پھر حسن نے یہی دکان حنیف کو 6 لاکھ ایڈونس اور 90 ہزار ماہانہ کرایہ پر دیا آیا اس طرح کرایہ پر دکان دینا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر نا جائز ہے تو جواز کی کوئی صورت ہے راہ نمائی کریں۔
واضح رہے کہ کرایہ کی دکان جتنے کرائے پر لیا ہے اتنے ہی کرائے پر کسی اور کو دینا جائز ہے، تاہم دو صورتوں میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی آگے کرایہ پر دے سکتا ہے :
(1) دوسرا کرایہ پہلے کی جنس میں سے نہ ہو، یعنی پہلے کرایہ روپے میں ہو تو یہ آگے پیسے کے بجائے کوئی اور چیز کرایہ مقرر نہ کرے ۔
(2) کرایہ دار نے اس کرایہ کی دکان میں کچھ اضافی کام (مثلاً رنگ، ٹائلز، یا اس میں کوئی اضافہ یادیگر تعمیراتی کام) کرایا ہو، تو ایسی صورت میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پہلے کرایہ دار نے مالکِ مکان سے مکان لینے کے بعد اس پر کچھ خرچہ وغیرہ کیا ہو، مثلاً کوئی اضافی تعمیرات کرائی ہوں یا مرمت وغیرہ کرائی تو اس صورت میں زائد کرایہ پر دینا جائز ہوگا، اسی طرح یہی حکم دوسرے شخص کے لیے ہے،اضافی کام نہ کرنے کی صورت میں اصل کرایہ کی رقم سے زائد کرایہ وصول کرنا جائز نہیں اس احتراز لازم ہے۔
الدرالمختار میں ہے:
( وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها ) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل يبطل التقييد ؛ لأنه غير مفيد ، بخلاف ما يختلف به كما سيجيء ، ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين : إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئا.
قال في الرد:
( قوله بخلاف الجنس ) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة ۔
( قوله أو أصلح فيها شيئا ) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم ؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط۔."
(کتاب الإجارة، باب مایجوز من الإجارة وما یکون خلافاً فيها، ج:9، ص:48، ط:رشیدیه)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144608102351
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن