بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو الحجة 1446ھ 05 جون 2025 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر دی گئی جائیداد کا ہبہ


سوال

میرے والد نے چار جائیدادوں میں سے ایک ایک جائیداد اپنی دو بیٹوں، ایک بیٹی، اور بیوی کے نام کردی تھی، اور ان کی فائلیں بھی ہمارے حوالے کردی تھیں۔ ان میں سے تین جائیدادیں پہلے سے کرایہ پر تھیں، جبکہ ایک بعد میں کرایہ پر دی گئی، جو والد صاحب نے مجھے دی تھی۔یہ جائیداد دیتے وقت والد صاحب نے فرمایا تھا کہ:"میں ان  جائیدادوں سے مسجد کی تعمیر کراؤں گا، اور اس کا کرایہ مسجد کی تعمیر میں لگایا جائے گا۔ جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو یہ جائیداد تمہاری ہوگی۔"چنانچہ میں نے اس فیکٹری (یعنی جائیداد) کی مرمت کروا کر اسے کرایہ پر دے دیا۔ ان چاروں جائیدادوں کا کرایہ والد صاحب خود وصول کرتے رہے اور مسجد کی تعمیر میں خرچ کرتے رہے۔اب مسجد کی تعمیر مکمل ہو چکی ہے اور توسیع کے بعد وہ پہلے سے چار گنا بڑی ہو گئی ہے۔ لیکن تعمیر مکمل ہونے کے بعد اب والد صاحب کا کہنا ہے کہ وہ اپنی وفات تک ان جائیدادوں کا کرایہ خود لیتے رہیں گے۔شرعی رہنمائی فرمائی۔

جواب

 واضح رہے کہ کسی بھی چیز کو ہبہ (تحفہ) کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ واهب (یعنی ہبہ کرنے والا)، موہوبہ (یعنی جس چیز کا ہبہ کیا جا رہا ہے) کو موہوب لہ (یعنی جسے ہبہ کیا جا رہا ہے) کے نام کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے اس چیز پر مکمل مالکانہ قبضہ اور تصرف بھی دے دے، اور خود اس چیز سے اپنا ہر قسم کا تصرف ختم کر دے۔ بصورتِ دیگر، شرعاً ہبہ صحیح نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں سائل کے والد نے مذکورہ جائیدادوں میں سے تین جائیدادیں ہبہ کرنے سے قبل ہی کرایہ پر دے دی تھیں، اور بوقت ہبہ کرایہ داری کا معاملہ اپنے نام سے منتقل کرواکر بیوی بچوں کے نام نہیں  کروایا  اور اب تک ان کا کرایہ بھی خود وصول کرتے رہے، اس لیے ان کے حق میں یہ ہبہ (گفٹ) مکمل نہیں ہوا۔ لہٰذا یہ تینوں جائیدادیں بدستور والد ہی کی ملکیت میں شمار ہوں گی، اور وہ ان میں ہر قسم کے تصرف کے مجاز ہیں، نیز ان کا کرایہ بھی انہی کا حق ہے۔

اسی طرح، جو ایک جائیداد بیٹے کے نام کی گئی، اور نام کرتے وقت یہ کہا گیا کہ:
"میں ان جائیدادوں سے مسجد کی تعمیر کراؤں گا، اور ان کا کرایہ مسجد کی تعمیر میں صرف کیا جائے گا، اور جب مسجد کی تعمیر مکمل ہو جائے گی تو یہ جائیداد تمہاری ہوگی۔"
پھر بیٹے نے اس فیکٹری کی مرمت کے بعد اُسے کرایہ پر دے دیا، اور والد صاحب اس کا کرایہ وصول کرتے رہے—
تو چونکہ اس صورت میں بھی مکمل مالکانہ قبضہ اور تصرف کے ساتھ حوالہ (یعنی ملکیت کی باقاعدہ منتقلی) نہیں پایا گیا، اس لیے یہ جائیداد بھی شرعاً والد ہی کی ملکیت میں شمار ہوگی، اور وہ نہ صرف اس کا کرایہ وصول کرنے کے حق دار ہیں بلکہ اس میں ہر قسم کے تصرف کے بھی مجاز ہیں۔

الاختيار لتعليل المختار میں ہے:

"‌‌وتصح بالإيجاب والقبول والقبض.

قال: (وتصح بالإيجاب والقبول والقبض) أما الإيجاب والقبول فلأنه عقد تمليك ولا بد فيه منهما. وأما القبض فلأن الملك لو ثبت بدونه للزم المتبرع شيء لم يلتزمه وهو التسلم بخلاف الوصية ; لأنه لا إلزام للميت لعدم الأهلية ولا للوارث لعدم الملك، ولأن الملك بالتبرع ضعيف لا يلزم، وملك الواهب كان قويا فلا يلزم بالسبب الضعيف، وقد روي عن جماعة من الصحابة مرفوعا وموقوفا «لا تجوز الهبة والصدقة إلا مقبوضة محوزة»."

(‌‌‌‌‌‌كتاب الهبة،ج:3،ص:48،ط:دار الكتب العلمية)

البحرالرائق میں ہے:

"‌وفي ‌الموهوب أن يكون مقبوضا غير مشاع متميزا غير مشغول على ما سيأتي تفصيله وركنها هو الإيجاب والقبول وحكمها ثبوت الملك للموهوب له غير لازم حتى يصح الرجوع والفسخ."

(کتاب الهبة، ج:7، ص:284، ط: دار الكتاب الإسلامي)

تبيين الحقائق میں ہے:

"ثم اعلم أن للإنسان أن ‌يتصرف في ‌ملكه ما ‌شاء من التصرفات ما لم يضر بغيره ضررا ظاهرا." 

(‌‌كتاب القضاء،باب مسائل شتى،ج:4،ص:193،ط:دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ولاية التصرف للمالك في المملوك باختياره، ليس لأحد ولاية الجبر عليه إلا لضرورة ولا لأحد ولاية المنع عنه وإن كان يتضرر به."

(کتاب الدعوی، فصل فی بیان حکم الملک و الحق، ج:6، ص:263، ط:دار الكتب العلمية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144611101363

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں