بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر کنٹینر دینے کے بعد نقصان کی صورت میں ضمان کا حکم


سوال

یاران شپنگ لائن کے شعبہ مرمت کے سر براہ کی حیثیت سے یہ دریافت کر نا چاہتا ہوں کہ ہمارے کنٹینر زجب بائع (Shipper) یا مشتری (Consignce) سے استعمال کرنے کے بعد  واپس آتے ہیں تو اس میں یا کوئی نقص آجاتا ہے یا ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتے ہیں یا بہت گندے یا میلے ہو کے آتے ہیں جس کی وجہ سے ہم اس نقصان کا ازالہ ان سے پیسے لے کے کرتے ہیں، یا ان سے گارنٹی کے طور پر جوایڈ وانس لیا گیا ہو تاہے اس میں سے منہا کیا جاتا ہے اس اعتبار سے مجھے کچھ سوالات کے جوابات مطلوب ہیں۔

(1)  ایک کنٹینر  مثلاً ایک ملک چین سے چلا،  دوسرے ملک ایران میں جاکے پہنچا،  جب اس کنٹیز کا جائزہ لیاتو اس کا نقصان کا اندازہ  اس ملک کے اعتبار سے 200 ڈالرز ہے، لیکن اس کی مرمت اگر کسی اور ملک میں یاپاکستان میں کرائی جائے تو وہ 200ڈالرز سے کم میں بھی ممکن ہے، تو کیا ہمارے لیے  جائز ہے کہ ہم اس سے200ڈالر ز وصول کر لیں اور اس کی مرمت جس ملک میں کم ہو وہاں سے کروالیں؟

(2) بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم اس نقصان کے بقدر یا گندا اور میلا واپس کرنے کی صورت میں رقم تو وصول کر لیتے ہیں لیکن اس کی مرمت نہیں کرواتے یا اس کی سروس نہیں کرواتے یا اس کنٹینر کو اسی حالت میں آگے فروخت کر دیتے ہیں، کیا ایسا کر نا جائز ہے ؟

(3) نقصان تو مارکیٹ ریٹ کے مطابق 200 ڈالر ز ہی  کا ہوا ہے ، لیکن ذاتی تعلقات کی بناء پر150 ڈالرز میں کام ہو جائے گا تو کیا پھر بھی 200 ڈالر ز وصول کرنا جائز ہے ؟

(4) بعض اوقات یہ صورت بھی ہوتی ہے کہ نقصان کا تخمینہ تقریباً 200 ڈالر ز کا ہوا، اور اس سے کام بھی چل سکتا ہے لیکن 200 ڈالرز سے زیادہ وصول کرتے ہیں، کیونکہ صرف اگر 200 ڈالرز ہی وصول کریں تو کام تو چل جائیگا لیکن وہ کنٹیز عیب دار نظر آئیگا یا اس کی قیمت میں کمی ہو سکتی ہے، مثال کے طور پر کسی گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو اور ڈینٹ پینٹ کا خرچہ 5000 روپے ہو،  اس 5000 روپے سے کام تو چل جائے گا،  لیکن چونکہ گاڑی نئی تھی اس لیے ضروری ہوتا ہے کہ پورا پیس  یا پور در وازہ ہی تبدیل کرانا پڑے؛ تاکہ اس گاڑی کی قیمت میں بھی کمی نہ آئے اور نہ وہ عیب دار لگے، بالکل یہ ہی صور تحال کنٹینر کی بھی ہوتی ہے، تو کیا ہمارے لیے  جائز ہے کہ ہم اس سے پورا پیس  تبدیل کرنے کے پیسے وصول کرلیں؟

وضاحت:

1: مختلف ملكوں ميں همارے نمائندے موجود هوتے هيں، مثلًا كوئي پاكستان سے چائنا تك سامان لے جانے كے ليے كنٹينر هم سے كرايه پر  لے  تو چائنا  پہنچنے پر  وہ کنٹینر ہمارے  نمائندے کے حوالہ کردیتا ہے۔

2: ہمارے صرف کنٹینر ہوتے ہیں، جو ہم متعین رقم کے بدلے کرایہ پر دیتے ہیں۔

3: کنٹینر کے گندے اور میلے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ  سفر کے دوران کبھی باہر اس پر ڈھول مٹی لگتی ہے اور کبھی کوئی ایسا سامان ہوتا ہے جس سے اندر سے بھی کنٹینر  گندا ہوتا ہے، اور پھر اس کی سروس کرائی جاتی ہے۔

جواب

واضح رہے کہ متعین وقت اور قیمت کے بدلے   سامان کی منتقلی کے لیے کسی کو   کنٹینر  دینا  شریعت کی اصطلاح میں ”اجارہ “ یعنی کرایہ داری کا معاملہ ہے،   اور کرایہ پر دی جانے والی چیز  مالک کی ملکیت میں برقرار رہتی ہے، کرایہ پر  لینے والے کو   اس سےصرف نفع حاصل کرنے کا حق حاصل ہوتا ہے، لہذا     کرایہ   پر دی جانے والی چیز کو انتفاع کے قابل بنانے اور  ملکیت سے  متعلقہ تمام  ذمہ داری مالک کی ہوتی ہے، جب کہ کرایہ پر دی ہوئی چیز ، کرایہ پر لینے والے شخص کے پاس ”امانت“ ہوتی ہے، اس لیے   کرایہ پر دینے کے بعد اگر  اس  چیز  میں کوئی نقصان ہوگیا  یا وہ ضائع ہوگئی تو  اگر  کرایہ پر لینے والی کی تعدی (زیادتی) یا کوتاہی  ہو  اور وہ ثابت بھی ہوجائے تو اس کا ضمان اس کے ذمہ ہوگا، اور اگر تعدی، غفلت اور کوتاہی ثابت نہ ہو تو اس کا ضمان کرایہ دار پر نہیں ہوگا۔ 

 صورت مسئولہ میں  ”یاران شپنگ لائن “ والے جب اپنا کنٹینر     بائع (Shipper) یا مشتری (Consignce) کو کرایہ پر دیتے  ہیں اور وہ استعمال کرنے کے بعد واپس کرتے ہیں اور اس  میں   واقعی نقص یا ٹوٹ پھوٹ ہو تو اگر اس  میں کرایہ پر لینے والے  کی کوئی تعدّی، غفلت،اور کوتاہی نہ ہو، یعنی  اس نے معروف طریقہ کے مطابق معتاد سامان (ایسا سامان جسے عام طور پر اس طرح کے کنٹینر میں بھیجا جاتا ہے) بھیجا، اور    ”یاران شپنگ لائن “  والوں کی شرائط کی خلاف ورزی نہیں کی  اور اس کے باجود اگر کنٹینر میں نقصان ہوگیا تو  ان پر اس کا  ضمان نہیں ہوگا، اور اگر  ان کی تعدّی ، غفلت اور کوتاہی ثابت ہوجائے تو پھران پر نقصان کا ضمان لازم ہوگا۔ باقی  کنٹینر کے گندے یا میلے ہونے پر کرایہ پر  لینے والوں سے اس کی سروس کے پیسے  لینا درست نہیں ہے بلکہ یہ مالک کی ذمہ داری ہے، البتہ مالک اپنے اخراجات کے حساب سے شروع ہی سے کرایہ میں اضافہ کرنا چاہے تو اس کا اس کو حق حاصل ہے۔

مذکورہ تفصیل  کے مطابق  سائل کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں :

1، 2، 3:اگر  کرایہ پر لینے والے کی  تعدّی، غفلت،اور کوتاہی  سے کنٹینر میں نقصان ہوگیا تو   کنٹینر جہاں حوالہ کیا جائے،وہاں جس قدر حقیقی نقصان کا  ماہرین کے آراء کے مطابق حساب لگایا جائے   وہ وصول کرنا جائز ہے، اس کے بعد اگر مالک اس کو بنائے بغیر فروخت کردے یا کسی اور ملک میں بنانے کی وجہ سے اس سے کم  خر چ آجائے یا بنانے والا مالک کو  رعایت کردے تو  حقیقی نقصان کی مد میں وصول کی گئی رقم سے بچی ہوئی رقم  واپس کرنا ضروری نہیں ہے۔

4: کرایہ پر لینے والے کی  تعدّی، غفلت،اور کوتاہی  سے کنٹینر میں نقصان ہونے کی صورت میں     نقصان سے پہلے اور  نقصان کے بعد کنٹینر کی ویلیو میں جو فرق ہو، وہ نقصان کی مد میں وصول کرنا جائز ہے،  لہذا یہ قیمت اگر پورے پیس بدلنے کے بقدر ہے تو  پورے پیس کی رقم لی جاسکتی ہے، البتہ   یہ اس وقت ہے جب کہ کنٹینر میں حقیقی نقصان  کی وجہ سے قیمت میں کمی ہو، اور اگر   کنٹینر میں نقصان نہ ہو  اور معروف طریقہ کے مطابق  استعمال  کرنےکے باجود   قیمت میں جو کمی ہو وہ شرعا ”نقصان“ نہیں ہے، اس کی مد میں رقم وصول کرناجائز نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولا يجمع بينهما) أي... ولا ضمان وقطع أو أجر... وفي الرد: قوله( أو أجر) أي ولا ضمان وأجر؛ كما لو استأجر دابة ليركبها ففعل وجب الأجر ولا ضمان وإن عطبت."

(259/1، باب التيمم، فروع، ط: سعيد)

مجلۃ الاحکام العدلیہ میں ہے:

"(المادة 600) المأجور أمانة في يد المستأجر إن كان عقد الإجارة صحيحا أو لم يكن.( المادة 601) لا يلزم الضمان إذا تلف المأجور في يد المستأجر ما لم يكن بتقصيره أو تعديه أو مخالفته لمأذونيته.( المادة 602) يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه. مثلا لو ضرب المستأجر دابة الكراء فماتت منه أو ساقها بعنف وشدة هلكت لزمه ضمان قيمتها...(المادة 607) لو تلف المستأجر فيه بتعدي الأجير أو تقصيره يضمن."

(مجلة الاحكام العدلية، ‌‌الكتاب الثاني: في الإجارات، ‌‌الباب الثامن في بيان الضمانات،  ‌‌الفصل الثاني: في ضمان المستأجر،ص: 112نور محمد كراتشي)

درر الحكام في شرح مجلة الأحكام" میں ہے:

"(المادة 602) يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه. مثلا لو ضرب المستأجر دابة الكراء فماتت منه أو ساقها بعنف وشدة هلكت لزمه ضمان قيمتها. يلزم الضمان على المستأجر لو تلف المأجور أو طرأ على قيمته نقصان بتعديه أي يلزمه ضمان كل قيمته إذا تلف وقيمة النقصان في حال طروء نقصان عليه انظر المادة (787 و 803) .  وإذا طرأ على المأجور نقصان فيجري حكمه على ما جاء في المادة (900) وقد بين في هذه المادة القيد المحترز عنه في المادة الآنفة وهو ما لم يكن بتقصيره أو تعديه أو مخالفته مأذونيته المذكورة في المادة السابقة."

 (1 / 697، كتاب البيوع، الباب الثامن في بيان الضمانات، ط: دارالجيل)

وفیہ أیضاً :

"(المادة 900) إذا تناقض سعر المغصوب وقيمته بعد الغصب فليس لصاحبه أن لا يقبله وأن يطالب بقيمته التي كانت في زمان الغصب ولكن طرأ على قيمة المغصوب نقصان بسبب استعمال الغاصب يلزم الضمان.   القسم الثاني: النقصان بفوات بعض الجزء. هذا النقصان موجب للضمان في كل حال... الصورة الأولى: النقصان الحاصل في المغصوب بفعل الغاصب. فعليه إذا طرأ على قيمة المغصوب نقصان بفوات جزئه وحصل ذلك من استعمال الغاصب له أو على أي فعل من أفعاله ولم يكن بتغير السعر ولم يكن المال من الأموال الربوية فيلزم الغاصب رد المغصوب وضمان نقصان القيمة لأن نقصان القيمة الحاصل من استعماله يحصل بتلف جزء من المال المغصوب. لأن المال المغصوب داخل بجميع أجزائه في ضمان الغاصب فلذلك لزم ضمان قيمة جزئه المتعذر رده وإعادته (الهداية، والعيني ملخصا) وفي هذه الصورة يقوم المغصوب على الحال التي كان عليها قبل الاستعمال ويقوم أيضا على الحال التي هو عليها بعد الاستعمال فما كان من فرق وتفاوت بين القيمتين تكون نقصان القيمة (الجوهرة)."

(2 / 553، كتاب الثامن الغضب، الفصل الأول في بيان أحكام الغصب، ط: دار الجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي كراهيتها من هدم حائط غيره ضمن نقصانه ولم يؤمر بعمارته إلا في حائط المسجد.

 (قوله: من هدم حائط غيره ضمن نقصانه) في شرح النقاية للعلامة قاسم إن شاء ضمنه قيمة الحائط والنقض للضامن، وإن شاء أخذ النقض وضمنه النقصان، وليس له أن يجبره على البناء كما كان؛ لأن الحائط ليس من ذوات الأمثال وطريق تضمين النقصان أن تقوم الدار مع حيطانها وتقوم بدون هذه الحائط فيضمن فضل ما بينهما اهـ، ومنه يظهر ما في كلام المصنف حموي. وقيل: إن كان الحائط جديدا أمر بإعادته وإلا لا."

 (6/ 181، كتاب الغصب، ط: سعيد)

وفیہ أیضاً :

" (وإذا نقص) العقار (بسكناه وزراعته ضمن النقصان) بالإجماع فيعطي ما زاد البذر وصححه في المجتبى وعن الثاني مثل بذره وفي الصيرفية هو المختار ولو ثبت له قلعه وتمامه في المجتبى (كما) يضمن اتفاقا (في النقلي) ما نقص بفعله كما في قطع الأشجار، ولو قطعها رجل آخر أو هدم البناء ضمن هو لا الغاصب (كما لو غصب عبدا وآجره فنقص في هذه الإجارة) بالاستعمال وهذا ساقط من نسخ الشرح لدخوله تحت قوله (وإن استغله) فنقصه الاستغلال أو آجر المستعار ونقص ضمن النقصان .

 (قوله: ضمن النقصان بالإجماع) ؛ لأنه إتلاف وقد يضمن بالإتلاف ما لا يضمن بالغصب أصله الحر أتقاني.

واختلفوا في تفسير النقصان قال نصير بن يحيى: إنه ينظر بكم تستأجر هذه الأرض قبل الاستعمال وبعده، فيضمن ما تفاوت بينهما من النقصان، وقال محمد بن سلمة: يعتبر ذلك بالشراء يعني أنه ينظر بكم تباع قبل الاستعمال وبكم تباع بعده فنقصانها ما تفاوت من ذلك فيضمنه وهو الأقيس. قال الحلواني: وهو الأقرب إلى الصواب وبه يفتى كما في الكبرى؛ لأن العبرة لقيمة العين لا المنفعة ... (قوله ضمن هو لا الغاصب) ... [تنبيه] النقصان أنواع أربعة: بتراجع السعر، وبفوات أجزاء العين، وبفوات وصف مرغوب فيه كالسمع والبصر واليد والأذن في العبد والصياغة في الذهب واليبس في الحنطة وبفوات معنى مرغوب فيه.  فالأول: لا يوجب الضمان في جميع الأحوال إذا رد العين في مكان الغصب. والثاني: يوجب الضمان في جميع الأحوال. والثالث: يوجب الضمان في غير مال الربا نحو أن يغصب حنطة فعفنت عنده أو إناء فضة فهشم في يده فصاحبه بالخيار إن شاء أخذ ذلك نفسه ولا شيء له غيره، وإن شاء تركه وضمنه مثله تفاديا عن الربا. والرابع: هو فوات المعنى المرغوب فيه في العين كالعبد المحترف إذا نسي الحرفة في يد الغاصب، أو كان شابا فشاخ في يده يوجب الضمان أيضا هذا إذا كان النقصان قليلا أما إذا كان كثيرا فيخير المالك بين أخذه وتركه مع أخذ جميع قيمته وستعرف الحد الفاصل بينهما من مسألة الخرق اليسير والفاحش مسكين."

(6/ 187،كتاب الغصب، ط: سعيد)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144410100948

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں