بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کا مکان آگے زیادہ کرائے پر دینا


سوال

اگر کوئی  شخص کسی  کو 3 لاکھ ایڈوانس  دے اور کرایہ کم دے اور مثلاً پندرہ سو کرایہ لے ، اور وہی کرایہ دار اس گھر کو کسی دوسرے شخص کو بارہ ہزار کرائے  پر دے تو کیا یہ جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ ایڈوانس زیادہ دینے کی شرط پر  کرائے میں  کمی کرنا سود ہونے کی وجہ سے ناجائز ہے؛ اس لیے کہ ایڈوانس رقم درحقیقت مالکِ مکان کے ذمہ قرض ہوتی ہے اور قرض کے عوض کسی قسم کا مشروط نفع اٹھانا سود ہونے کی وجہ سے حرام ہے، لہذا  صورت ِ مسئولہ میں ایڈوانس کی  زیادتی کی شرط لگا کرکرایہ میں کمی کرناشرعاً ناجائز ہے ،اس طرح کے معاملہ سے اجتناب کیا جائے، اور اگر ایڈوانس زیادہ دینے کی شرط پر کرایہ کی رقم کم  نہ  ہو تو  جائز ہے،  نیز   اگر  کرایہ  دار  کسی دوسرے شخص کو آگے کرایہ پر دیتا ہے تو اس کے لیے دو شرطیں ہیں:

(1) وہ کسی ایسے شخص کو دکان کرایہ پر نہیں دے سکتا جس کے کام سے دکان میں نقصان ہو۔

(2) دکان کا کرایہ، اصل کرایہ سے زیادہ نہ لے، ورنہ زیادتی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی۔

تاہم دو صورتوں میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی آگے کرایہ پر دے سکتا ہے :

(1) دوسرا کرایہ پہلے کی جنس میں سے نہ ہو، یعنی پہلے کرایہ روپے میں ہو تو یہ آگے پیسے کے بجائے کسی اور چیز پر کرایہ مقرر کرے۔

(2) کرایہ دار نے اس کرایہ کی دکان میں کچھ اضافی کام (مثلاً رنگ،  ٹائلز، یا اس میں کوئی اضافہ یادیگر تعمیراتی کام) کرایا ہو، تو ایسی صورت میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے۔

النتف فی الفتاوی میں ہے :

"أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون. الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک) الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه."

(انواع الربا،الربا فی القروض ،ج:1،ص:484،دارالفرقان )

المحيط البرهاني للإمام برهان الدين میں ہے:

"قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لايتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأنّ الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لاتطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله".

 (‌‌‌‌كتاب الإجارات، الفصل السابع: في إجارة المستأجر، 7 / 429، ط: دار الكتب العلمية، بيروت)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"‌وإذا ‌استأجر ‌دارا ‌وقبضها ‌ثم ‌آجرها فإنه يجوز إن آجرها بمثل ما استأجرها أو أقل، وإن آجرها بأكثر مما استأجرها فهي جائزة أيضا إلا إنه إن كانت الأجرة الثانية من جنس الأجرة الأولى فإن الزيادة لا تطيب له ويتصدق بها، وإن كانت من خلاف جنسها طابت له الزيادة ولو زاد في الدار زيادة كما لو وتد فيها وتدا أو حفر فيها بئرا أو طينا أو أصلح أبوابها أو شيئا من حوائطها طابت له الزيادة، وأما الكنس فإنه لا يكون زيادة وله أن يؤاجرها من شاء إلا الحداد والقصار والطحان وما أشبه ذلك مما يضر بالبناء ويوهنه هكذا في السراج الوهاج".

 (كتاب الإجارة، السابع في إجارة المستأجر، 4/ 425، ط: دار الفكر بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144503100235

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں