بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر لی گئی دکان آگے اصل کرایہ سے زیادہ کرایہ پر دینے کا حکم


سوال

عمرو ایک دکان کا مالک ہے، عمرو نے یہ دکان بکر کو کرایہ پر دی، بکر عمرو کو ماہانہ کرایہ دیتا رہا، پھر بکر  یہ کرایہ پر لی ہوئی دکان آگے زیدکو کرایہ پر دیتاہے اور زید  اس سے زیادہ کرایہ دیتاہے جتنا کرایہ عمرو اور بکر کے درمیان طے ہواتھا، بکر  عمرو کو اصل کرایہ (جو عمرو اور بکر کے درمیان طے ہوا تھا) دینے کے بعد بقیہ کرایہ خود رکھ لیتاہے،  کیا بکر کے لیے ایسا کرنا درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں بکر کے لیے کرایہ پر لی ہوئی دکان آگے زائد کرایہ پر دینا جائز ہے، البتہ زائد کرایہ  بکر کے لیے حلال ہونے کے لیے دو باتوں میں سے ایک بات کا پایاجانا ضروری ہے، ورنہ زائد کرایہ بکر کے لیے حلال نہیں ہوگا، اور وہ دو باتیں یہ ہیں کہ:

1:دوسرے کرایہ کی رقم وغیرہ پہلے کرائے کی جنس میں سے نہ ہو، یعنی پہلے کرایہ روپے میں متعین ہوا تو یہ آگے روپے کے بجائے کسی اور کرنسی کو  کرایہ کی ادائیگی کے لیے مقرر کرے۔

2: دوسری صورت یہ ہے کہ کرایہ دار نے اس کرایہ کی دکان میں کچھ اضافی کام (مثلاً رنگ وروغن،  ٹائلز، فرنیچر وغیرہ  یادیگر تعمیراتی کام یا ڈیکوریشن  کا کام وغیرہ) کرایا ہو، تو ان دونوں  صورتوں  میں زائد کرایہ کی رقم بکر کے لیے حلال ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

 (وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها) وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل  بطل التقييد؛ لأنه غير مفيد، بخلاف ما يختلف به كما سيجيء، ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئاً.

(قوله: بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله: أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط والكنس ليس بإصلاح وإن كرى النهر قال الخصاف تطيب وقال أبو علي النسفي: أصحابنا مترددون وبرفع التراب لاتطيب وإن تيسرت الزراعة ولو استأجر بيتين صفقة واحدة وزاد في أحدهما يؤجرهما بأكثر ولو صفقتين فلا خلاصة ملخصاً."

(كتاب الإجارة، باب مايجوز من الإجارة وما يكون خلافاّ فيها، ج:6، ص:29، ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144403101590

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں