والد صاحب نے وقف کی ایک دکان پگڑی پر لے رکھی تھی، جس میں ان کے چار بیٹوں میں سے صرف دو بیٹے ان کے ساتھ بیٹھ کر کاروبار کرتے تھے، باقی دو بیٹے گھر سے باہر ذریعہ معاش میں لگے تھے، اور خوشحال تھے، والد صاحب نے اِنہی دو بیٹوں کے نام یہ دکان مختص کر دی اور ایک تحریر میں لکھا کہ ’’جب تک کوئی متبادل انتظام نہ ہو دونوں فریق میں سے کسی کو بھی دوسرے فریق کو دکان سے بے دخل کرنے کا کوئی حق نہ ہوگا‘‘، ۲۰۰۹ء میں والد صاحب نے ایک اور موقوفہ دکان پگڑی پر لی، تاکہ دونوں کے لیے الگ الگ دکان ہو جائے، جب دوسری دکان خریدی گئی تو والد صاحب نے ایک شرط رکھی کہ جو بیٹا بڑی یعنی زیادہ قیمتی دکان پر بیٹھے گا وہ ہر مہینے ۱۰ ہزار روپیہ والد کو اور ان کی وفات کے بعد والدہ کو ادا کرے گا، یہ شرط سن کر بڑے بھائی نے اپنی ذاتی ذمہ داریوں کی وجہ سے خود کو اس شرط کی ادائیگی کے قابل نہیں سمجھا، اور بڑی دکان سے ہٹ کر چھوٹی دکان پر چلے گئے، اس کے بعد چھوٹے بھائی بڑی دکان پر بیٹھنے لگے، حتی کہ پانچ سال کے بعد ۲۰۱۴ء میں والد صاحب کا انتقال ہو گیا۔
والد صاحب کے انتقال کے بعد چھوٹے بھائی نے شرط کی خلاف ورزی کی، اور اب تک والدہ کو ۱۰ ہزار روپیہ ماہانہ ادا نہیں کیے، ایک اہم بات یہ ہے کہ جس دکان پر بڑے بھائی بیٹھتے تھے وہ ان کے نام پر نہیں تھی، بلکہ ساڑھے پانچ سالہ کرایہ نامہ پر ان کو دی گئی تھی، جس میں طے شدہ کرایہ پانچ ہزار روپے ماہانہ تھا، یہ کرایہ والد صاحب کے علم میں تھا، مگر والد صاحب نے کبھی یہ حکم نہیں دیا کہ یہ دکان بڑے بھائی کے نام کی جائے، وقت گزرنے کے ساتھ بڑے بھائی نے یہ کرایہ ادا کرنا بند کر دیا، اور بات چیت بند ہو گئی۔
آج کا مسئلہ یہ ہے کہ چھوٹے بھائی نے بڑے بھائی کو بڑی دکان سے اس بنیاد پر نکال دیا کہ متبادل انتظام ہو چکا ہے، حالاں کہ دونوں دکانوں کی قیمت میں تقریبا ۳۰ لاکھ روپے کا فرق ہے، ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ چھوٹے بھائی اب یہ دعوی کرنے لگے ہیں کہ والد صاحب نے اپنی زندگی میں بڑی دکان ان کے نام کر دی تھی، مگر اس بات کا علم نہ تو باہر کے بھائیوں کو ہے اور نہ ہی بڑے بھائی کو، دوسری اہم بات یہ ہے کہ جب بڑے بھائی بڑی دکان پر بیٹھتے تھے تو والد صاحب کے حکم پر دونوں بھائیوں نے ایک موقوفہ گودام پگڑی پر حاصل کیا تھا، تاکہ دکان کا سامان رکھا جا سکے، اس وقت دونوں برابر کے شریک تھے، آج وہی گودام چھوٹے بھائی کے قبضے میں ہے، جو اب اسے ذاتی ملکیت قرار دے کر بڑے بھائی کو واپس نہیں دینا چاہتے، بلکہ اس پر دکان قائم کردی۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ: (۱) کیا شرعی لحاظ سے چھوٹی دکان کو بڑے بھائی کے نام کرانا جائز ہے؟ اور کیا وہ اس پر اپنی حق تلفی کی بنیاد پر بڑی دکان کی قیمت کے فرق کا مطالبہ کر سکتے ہیں؟ (۲) اور کیا جس گودام کو والد صاحب کے حکم پر لیا گیا اس پر بڑے بھائی کا بھی برابر کا حق نہیں بنتا؟ اور کیا اس کا مطالبہ شرعی طور پر درست ہے؟ ہم سب اللہ کی پناہ چاہتے ہیں کہ کسی کا نا حق مال نہ لے بیٹھیں، مگر چاہتے ہیں کہ ہر کسی کے لیے انصاف کی بنیاد پر ایک ایسا حل نکلے جس سے اللہ تعالی کی رضا اور آپ حضرات کی دعائیں حاصل ہوں۔ جزاکم اللہ خیرا۔
نوٹ: ہندوستان کے شہر اٹاوہ میں عرصہ دراز سے بہت سے لوگوں نے اوقاف کی جائیدادوں کو بطور پگڑی لیا ہوا ہے، اور اس پر مکمل مالکانہ حق جتاتے ہوئے پگڑی پر اس کی خرید و فروخت بھی کرتے ہیں، اور اب اسے بطور میراث کے تقسیم کرنا کرانا چاہتے ہیں، اسی کے متعلق اوپر سوال کیا گیا۔
۱: بصورتِ مسئولہ دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی ان د کانوں کا مالک نہیں ہے، کیوں کہ مال وقف ہونے کے بعد واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالیٰ کی ملکیت میں داخل ہو جاتا ہے، اور اس کے بعد موقوفہ مال پر بیع، ہبہ یا وراثت وغیرہ کسی بھی طریقہ سے کسی بھی شخص کی ملکیت ثابت نہیں ہوسکتی؛ اس وجہ سے نہ چھوٹے بھائی کے لیے بڑی د کان اپنے نام کرانا جائز ہے، اور نہ ہی بڑے بھائی کے لیے چھوٹی د کان اپنے نام کرانا جائز ہے، نیز جب چھوٹا بھائی بڑی د کان کا مالک وحق دار نہیں ہے، تو بڑے بھائی کو دونوں دکانوں کی قیمت کےفرق کا مطالبہ کرنا بھی جائز نہیں ہے۔
۲: دوکانوں کی طرح گودام بھی اگر وقف کا ہے، تو چھوٹے یا بڑے بھائی میں سے کوئی بھی اس گودام کا مالک نہیں ہے، جب تک دونوں کے درمیان شراکت جاری تھی تب تک گودام کا کرایہ ان دونوں پر لازم تھا، اب چوں کہ شراکت ختم ہوچکی ہے اس لیے اب جو بھی اس گودام کو استعمال کرے گا، گودام کا کرایہ ادا کرنا صرف اسی کے ذمہ لازم ہوگا۔
الفتاوى الهندية میں ہے:
"وعندهما حبس العين على حكم ملك الله تعالى على وجه تعود منفعته إلى العباد فيلزم ولا يباع ولا يوهب ولا يورث كذا في الهداية وفي العيون واليتيمة إن الفتوى على قولهما كذا في شرح أبي المكارم للنقاية."
(كتاب الوقف، الباب الأول، ٢/ ٣٥٠، ط: رشيدية)
وفيه أيضا:
"والوضيعة أبدا على قدر رءوس أموالهما، كذا في السراج الوهاج."
(كتاب الشركة، الباب الثالث، الفصل الثاني، ٢/ ٣٢٠، ط: رشيدية)
حاشية ابن عابدين میں ہے:
"(فإذا تم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن).
(قوله: لا يملك) أي لا يكون مملوكا لصاحبه ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع ونحوه لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه، ولا يعار، ولا يرهن لاقتضائهما الملك درر."
(كتاب الوقف، ٤/ ٣٥١، ط: سعيد)
درر الحكام شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"(النعمة بقدر النقمة والنقمة بقدر النعمة) . . . مثال ذلك: لما كانت نفقة اللقيط (وهو الولد المتروك في الشوارع مجهول الأب والأولياء) تلزم بيت المال ويؤدى عنه من بيت المال فيما لو قتل شخصا دية القتيل. فتركته تعود إلى بيت المال لو مات فبيت المال الذي يغرم نفقات اللقيط ويتحمل عنه الدين يغنم تركته."
(المقدمة، المقالة الثانية، المادة: ٨٨، ١/ ٩٠، ط: دار الجيل)
فقط والله تعالى أعلم
فتوی نمبر : 144612101256
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن