بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر کتاب لینا


سوال

کیا کسی دکان سے کتاب کرائے پر لے کر پڑھنا جائز ہے، شریعت اس کے متعلق کیا کہتی ہے ؟ مثال کے طور پر ایک کتاب کی قیمت ایک ہزار روپے ہے میں، وہ کتاب ایک ہزار روپے میں خریدنا نہیں چاہتا،  بلکہ میں یہ چاہتا ہوں کہ میں دکاندار کو بارہ سو روپے ایڈوانس رکھوا کر وہ کتاب لے جاؤں اور گھر پر اس کتاب کو مکمل پڑھ لینے کے بعد دکاندار سے ہزار روپے واپس لے لوں اور دو سو روپے اس کو دے دوں یہ دوسو روپے کرائے کی مد میں آئیں گے،  کیا ایسا کرنا جائز ہے؟

جواب

  واضح رہے کہ جو  کتب  و  رسائل فحش اور خلاف شرع مضامین پر مشتمل ہوں انہیں کرایہ پرلینا اور   دینا معصیت اور گناہ میں تعاون کرنا ہے جو ناجائز ہے۔ البتہ جو کتب و  رسائل اسلامی ہیں  یا جن کے مضامین خلافِ شرع نہیں ہیں ان کو کرایہ پر دینے کے بارے میں حضرات فقہاءِ کرام کا اختلاف ہے،   فقہاءِ  احناف  کی عام تصریحات کے مطابق یہ بھی کرایہ پر دینا ناجائز ہے۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں میں کسی کتاب کا کرایہ پر لینا یا دینا جائز نہیں ۔ 

فتاوی محمودیہ میں ہے(جلد 16 ص:607): 

"کتابیں کرایہ پر دینا 

سوال:  ایک دکان دار جس کی آمدنی صرف کتابوں کو کرایہ پر دینے سے حاصل ہوتی ہے،  اس کی آمدنی کا کیا حکم ہے،  کیا کتابیں کرایہ پر دینا گناہ ہے؟

جواب:  فتاوی عالمگیری میں ہے کہ کتابیں کرایہ پر دینا منع ہے اور اس اجارہ کو باطل قرار دیا ہے ۔"

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144212202055

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں