سواری کے لیے خریدی ہوئی گاڑی جو کہ کوئٹہ ٹو کراچی یا آل پاکستان چلائی جاتی ہے۔ اس کے اوپر زکوۃ کی کیا ترتیب ہے؟
سواری والی گاڑی جو کرایہ پر دی جاتی ہے یا آمدنی کے ذریعے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے ایسی گاڑی کی قیمت پر زکوۃ واجب نہیں ہے ۔البتہ اگر کرایہ کی رقم چاندی کے نصاب کے برابر ہے یا وہ آدمی پہلے سے صاحب نصاب ہے تو ان صورتوں میں کرایہ کی بچی ہوئی رقم سے سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنا لازم ہے ۔اور اگر کرایہ کی رقم باقی نہیں رہتی،بلکہ خرچ ہوجاتی ہے تو اس صورت میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔
فتاوی ھندیہ (180/1):
"و لو اشتری قدورًا من صفر يمسكها ويواجرها لاتجب فيهازكوة ."
الفقه الاسلامي وادلته (864/2):
"زكاة العمارات و المصانع ... أو العمارات بقصد الكراء و المصانع المعدة للانتاج لاتجب الزكوة في عينها و إنما في ربعها وغلتها أو أرباحها."
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144203200648
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن