بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر دی جانی والی گاڑی کی زکوۃ


سوال

سواری کے لیے  خریدی ہوئی گاڑی جو کہ کوئٹہ ٹو کراچی یا آل پاکستان چلائی جاتی ہے۔ اس کے اوپر زکوۃ کی کیا ترتیب ہے؟

جواب

سواری والی گاڑی  جو کرایہ پر دی جاتی ہے یا آمدنی کے ذریعے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے  ایسی گاڑی کی قیمت پر زکوۃ واجب نہیں ہے ۔البتہ اگر کرایہ کی رقم چاندی کے نصاب کے برابر ہے یا وہ آدمی پہلے سے صاحب نصاب ہے تو ان صورتوں میں کرایہ کی بچی ہوئی رقم سے سالانہ ڈھائی فیصد زکوۃ نکالنا لازم ہے ۔اور اگر کرایہ کی رقم باقی نہیں رہتی،بلکہ خرچ ہوجاتی ہے تو اس صورت میں زکوۃ واجب نہیں ہوگی۔

فتاوی ھندیہ (180/1):

"و لو اشتری قدورًا من صفر يمسكها ويواجرها لاتجب فيهازكوة ."

الفقه الاسلامي وادلته (864/2):

"زكاة العمارات و المصانع ... أو العمارات بقصد الكراء و المصانع المعدة للانتاج لاتجب الزكوة في عينها و إنما في ربعها وغلتها أو أرباحها."

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144203200648

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں