میں پراپرٹی ڈیلرہوں،میں نے ایک بندہ کوفون پے ایک مکان کے بارے میں بتایاکہ فلاں جگہ کرایہ پر ایک مکان مل رہا ہے،لوکیشن وغیرہ سب بتادی تھی، چند دن بعد اس بندہ نے فون کرکے کہاکہ مکان دکھادو،میں نے کہا کہ آج(8محرم)چھٹی کا دن ہے،دکان بند ہے اورموبائل کے سگنل بھی ہر جگہ نہیں آرہے ،11 محرم کو مکان دکھادوں گا،پھر اس بندہ نے خود جا کر مکان دیکھ لیا اور مالک مکان سے ملاقات بھی کرلی،مالک مکان نے کہا ابھی بروکر نہیں ہے آپ 11 محرم کو آجانا،پھر 11 محرم کے دن میں نےدونوں کی ملاقات کراوئی اور کرایہ (33ہزار روپے)اور ڈپازٹ طے کروایا،مکان میں پانی کا کچھ کام وغیرہ تھا ،وہ مالک مکان سے کروایا،اب جب میرے کمیشن لینے کا وقت آیا تو کرایہ دار نے کہاکہ آپ نےپورا کام نہیں کیا یعنی جب آپ کو مکان دکھانے کا کہا تھاتو اس وقت آپ نے نہیں دکھایا ،لہذا آپ کا کمیشن10ہزار روپے ہوگا،جب کہ یہ طے ہوتا ہے کہ ایک کرایہ کی رقم کے برابر ایجنٹ کا کمیشن ہوتا ہے،اس لحاظ سے میرا کمیشن 33 ہزار بنتا ہے،اب سوال یہ ہے کہ میں اپنے پورے کمیشن کا حق دار ہوں یا کرایہ دار جو 10 ہزار روپے دے رہا ہےبس اسی میں میرا حق ہے؟
نوٹ:کرایہ دار جب خود مکان دیکھنے گیا تھا تو اس نے مالک مکان سے اس وقت کہدیا تھا کہ یہ مکان میں کرایہ پر لوں گا،لیکن کرایہ وغیرہ کچھ طے نہیں کیاتھا،بل کہ مالک مکان نے کہا تھا ابھی بروکر نہیں ہے،11 محرم کو اس کے ساتھ مل کر بات کریں گے۔
واضح رہے کہ کمیشن ایجنٹ جب کسی جائزمعاملہ میں ایجنٹ کے طور پر کام کرتاہےاور اس میں اس کی محنت اور عمل بھی شامل ہو تو وہ اپنے عمل اور خدمت کے عوض مقررہ یا معروف اجرت کا مستحق ہوتا ہے،لہذا صورت مسئولہ میں چوں کہ مالک مکان اور کرایہ دارکے درمیان مکان کو کرایہ پر دینے کا اصل معاہدہ ـ(11 محرم)سائل کے ذریعہ ہوا ہے،اور کرایہ کی تعیین اور مکان کا کام وغیرہ بھی سائل کے واسطے سے ہوا،اس لیےسائل اپنی پورے کمیشن (پہلے کرایہ کے برابر رقم)کا مستحق ہے،کرایہ دار پر لازم ہے کہ وہ سائل کو پورا کمیشن دے،باقی کرایہ دار کا یہ کہنا کہ " آپ نےپورا کام نہیں کیا یعنی جب آپ کو مکان دکھانے کا کہا تھاتو اس وقت آپ نے نہیں دکھایا ،لہذا آپ کا کمیشن10ہزار روپے ہوگا"،درست نہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه."
(کتاب الاجارۃ،باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:6، ص:63 ،ط:سعید)
وفیه ايضاً:
"وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.
(قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين."
(كتاب البيوع، ج:4، ص:560، ط:سعيد)
درر الحكام في شرح مجلة الأحكام میں ہے:
"(المادة ٤٢٤) :الأجير المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل.أي لا يستحق الأجرة إلا بعمل ما استؤجر لعمله؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بينهما فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر لا يسلم له العوض والمعقود عليه هو العمل، أو أثره على ما بينا؛ فلا بد من العمل.(زيلعي. رد المحتار) .فمتى، أوفى العامل العمل استحقت الأجرة."
(الکتاب الثاني الاجارۃ، الباب الاول، المادة424:الأجير المشترك لا يستحق الأجرة إلا بالعمل، ج:1، ص:457، دار الجیل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101521
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن