بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ داری کے معاملات میں سال بول کر گیارہ ماہ کا ایگریمنٹ بنانا


سوال

میں ایک کرایہ دار کی حیثیت سے رہتا ہوں، مالک مکان جب سال کا ایگریمنٹ کرتے ہیں تو گیارہ مہینے کا ایگریمنٹ بناتے ہیں، جبکہ اللہ تعالی نے سال کے بارہ مہینے رکھے ہیں، ا س طرح سال میں ایک مہینہ کم کردیتے ہیں، قرآن و حدیث کی روشنی میں بتائیں کہ ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟ 

جواب

کرایہ داری کے معاملات میں موجودہ زمانے میں یہ  رواج ہے کہ گیارہ مہینوں کا معاہدہ ہی کیا جاتا ہے ، پورے بارہ مہینوں کا نہیں کیا جاتا اور گیارہ مہینے گزرنے کے بعد تجدیدِ معاہدہ کیا جاتا ہے اور بسا اوقات گیارہ ماہ کو عام بول چال میں سال کہہ دیا جاتا ہے جبکہ  مشہور رواج کی وجہ سے سال سے مراد   گیارہ ماہ  ہوتے ہیں، اس کی نظیر قرآن مجید میں بھی موجود ہے، حضرت یونس علیہ السلام کے بارے میں قرآن کریم میں  اللہ تعالی ارشاد فرماتے ہیں:

’’ وَأَرۡسَلۡنَٰهُ إِلَىٰ مِاْئَةِ أَلۡفٍ أَوۡ يَزِيدُونَ  [الصافات: 147] ‘‘

’’ ترجمہ: اور ہم نے ان کو لاکھ یا اس سے زیادہ آدمیوں کی طرف پیغمبر بناکر بھیجا تھا‘‘         

اللہ تعالی کی ذات تو علیم و خبیر ذات ہے، اسے  کائنات کے ذرے ذرے کا علم ہے ، یونس علیہ السلام کی قوم کی مکمل  تعداد بھی اس کے علم میں ہے تو مکمل تعداد بیان کرنے کی بجائے "ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ آدمی" کہنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟  اس کا جواب مفسرین یہ دیتے ہیں کہ ایسا  عام لوگوں کی بول چال کے مطابق کہا گیا ہے یعنی اگر کوئی عام آدمی اتنے بڑے مجمعے کو دیکھتا تو یہی کہتا کہ  ان کی تعداد ایک لاکھ یا اس سے کچھ زیادہ ہے، اور حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ "یہاں شک کا اظہار مقصود ہی نہیں ہے، انہیں ایک لاکھ بھی کہا جاسکتا ہے اور ایک لاکھ سے زیادہ بھی، اور وہ اس طرح کہ اگر کسر کا لحاظ نہ کیا جائے تو ان کی تعداد ایک لاکھ تھی اور اگر کسر کو بھی شمار کیا جائے تو ایک لاکھ سے زیادہ" (بیان القرآن) 

لہذا گیارہ ماہ کو سال کہہ دینا کسر کا لحاظ نہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے جوکہ عام بول چال کے مطابق ہے، اسے سراسر غلط نہیں کہا جاسکتا، جیسا کہ انسان اپنی عمر بتاتے ہوئے گن کر پورے پورے دن اور مہینے نہیں بتاتاکہ میری عمر اتنے دن اور اتنے ماہ ہے بلکہ کسر کا لحاظ نہ کرتے ہوئےصرف  سال شمار کرکے  بتادیتا ہے کہ اتنے سال عمر ہے حالانکہ اس کی عمر بتائے گئے  سال سے کم بیش ہی ہوا کرتی ہے۔

فقط واللہ اعلم  


فتوی نمبر : 144303100922

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں