بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ دار کو دکان فروخت کرنے کے بعد مکمل پیمنٹ کی وصولی تک اس سے کرایہ لیتے رہنا


سوال

میں نے ایک دوکان مثلاً ایک لاکھ روپے میں فروخت کردی اور بیعانہ کی مد میں بیس ہزار دوکان خریدنے والے سے وصول کرلیے ہیں اور بقایا رقم تین ماہ میں ادا کرنے کا وقت دیا ہے۔ خریدار مذکورہ دوکان پر کرایہ داربھی ہے، اب میرے لیے مذکورہ دوکان کا کرایہ لیناکیسا ہے؟ کیا کرایہ لینا سود کےزمرے میں آتاہے؟ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر   آپ نے اپنی  کرایہ پر دی ہوئی دکان باقاعدہ سودا کرکے ایک لاکھ میں  کرایہ دار ہی کو فروخت کردی  اور سودا کرلیا  اور بیعانہ کی مد میں بیس ہزار روپے وصول کرلیے ہیں تو یہ دکان اب خریدار (سابقہ کرایہ دار)  کی ملکیت ہوگئی ہے اور اس کے ذمہ باقی اسّی ہزار روپے ادا کرنا لازم ہیں،  جب یہ دکان کرایہ دار  کی ملکیت ہوگئی   تو اس کے بعد مزید تین مہینہ اس سے  کرایہ وصول کرنا جائز نہیں ہوگا، اس لیے  ایک تو  وہ  شخص  اپنی مملوکہ چیز کا کرایہ دے رہا ہے جو کہ جائز نہیں ہے اور دوسرا یہ کہ آپ کے اسّی ہزار روپے اس خریدنے والے کے ذمہ  قرض ہے، اس باقی قرض کی وجہ آپ اس سے کرایہ وصول کررہے ہیں  یہ صورت قرض پر نفع لینے کی ہے جو کہ سود ہے۔

اس کی جائز متبادل صورت یہ ہوسکتی ہے کہ   مثلاً دکان کا کرایہ پانچ ہزار روپے ہے اور آپ دکان  فروخت کرنا چاہ رہے ہیں، لیکن کرایہ دار خریدنے کی صورت میں  مکمل پیمنٹ تین ماہ میں ادا کرے گا   تو اگر آپ نے ابھی تک دکان فروخت نہیں کی ہے تو آپ ایک لاکھ میں دکان فروخت کرنے بجائے  ایک لاکھ پندرہ ہزار روپے میں سودا کرلیں، پھر خواہ اس سے  ہر ماہ پانچ ہزار  وصول کرلیں  یا آخر میں یکمشت لے لیں  دونوں صورتیں جائز ہوں گی۔

الفتاوى الهندية (4 / 410):

 ومنها الملك والولاية فلا تنفذ إجارة الفضولي لعدم الملك والولاية.

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144201200924

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں