بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ ادا کرنے سے پریشان ہوکر بینک کی اسکیم سے گھر خریدنا


سوال

میں سابقہ 10 سال سے کرایہ کے گھر پر رہائش پزیر ہوں، معقول رقم کا بندوبست نہیں ہو پا رہا کہ اپنا مکان بنا پاؤں، پیسے 5 لاکھ جوڑتا ہوں تب تک پلاٹ 10لاکھ کا ہو جاتا ہے،پلاٹ کے پیسے ہیں تو مکان بنانے کے نہیں، 7افراد کے ساتھ مکان کے لیَے رقم جوڑنا انتہائی ناممکن لگتا ہے۔  کوشش کی بھی اور جاری بھی ہے ، کیا میں بنک سےمیراگھر کے تحت قرض لے سکتا ہوں؟ میں جو کرایہ ادا کر رہاہوں وہ ہرسال زیادہ ہو جاتا ہے،بنک سے لی گئی رقم سے قسط اداکرنے پرکچھ سال بعدمیرا اپنا مکان ہو جائے گا۔

جواب

واضح  رہے  کہ گھر انسان کی بنیادی ضرورت ہے، لیکن  یہ ضرورت  کرایہ کے  مکان میں رہ کر بھی پوری  کی جاسکتی ہے، اور اپنے اخراجات محدود کرکے بچت بھی کی جاسکتی ہے، نیز اعتدال کے ساتھ شرعی حدود میں  رہ کر اپنی محنت اور دعا بڑھاکر آمدن میں اضافہ بھی ممکن ہے لہذا صورت مسئولہ میں بینک کی مذکورہ غیر شرعی اسکیم کے تحت گھر خریدنا جائز نہیں ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

{ أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا الله َ وَذَرُوْا مَا بَقِيَ مِنَ الرِّبَا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِيْنَ فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَأْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللهِ وَرَسُوْلِه وَإِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ أَمْوَالِكُمْ لَاتَظْلِمُوْنَ وَلَا تُظْلَمُوْنَ وَإِنْ كَانَ ذُوْ عُسْرَةٍ فَنَظِرَة إِلٰى مَيْسَرَةٍ وَأَنْ تَصَدَّقُوْا خَيْر لَّكُمْ إِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ} [البقرة : ۲۷۸ إلى ۲۸٠ ]

ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ سود کا بقایاہے اس کو چھوڑ دو اگر تم ایمان والے ہو، پھر اگرتم نہ کرو گے تو اشتہار سن لو جنگ کا اللہ کی طرف سے اور اس کے رسول کی طرف سے، اور اگر تم توبہ کرلوگے تو تم کو تمہارے اصل اموال مل جائیں گے، نہ تم کسی پر ظلم کرنے پاؤ گے اور نہ تم پر ظلم کرنے پائے گا، اور اگر تنگ دست ہو تو مہلت دینے کا حکم ہے آسودگی تک اور یہ کہ معاف ہی کردو  زیادہ بہتر ہے تمہارے لیے اگر تم کو خبر ہو۔ (بیان القرآن )

فتاوی شامی میں ہے :

"وفي الأشباه كل قرض جر نفعا حرام."

(5/ 166، ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307102060

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں