بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ پر دی ہوئی چیز کی وجہ سے قربانی کا حکم


سوال

میری گھر والی نے پیسے کمانے کے لیے ایک گاڑی لی ہے  جس کا ماہانہ کرایہ آتا ہے۔گاڑی کی قیمت تین لاکھ روپے ہے۔لیکن فی لحال وہ گاڑی  بھی بے روزگار ہے تو کیا اس پر قربانی واجب ہوگی یا نہیں؟

جواب

جس شخص کے پاس بنیادی ضرورت اور استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس شخص پر قربانی واجب ہوتی ہے۔ لہٰذا  اگر گاڑی کرایہ پر ہے یا قربانی کے دن تک کرایہ پر چلی جائے تو سائل کی گھر والی پر ایک حصہ قربانی کا  لازم ہوگا،کیونکہ  کرایہ پر دی ہوئی چیز جب تک کرایہ پر ہے حاجتِ اصلیہ سے زائد ہے (از:قربانی کے مسائل کا انسائیکلوپیڈیا، ص:136بیت العمارکراچی)،لیکن اگرعید کے دن تک   گاڑی کرایہ پر نہیں جاتی اور اس کےعلاوہ سائل کی گھر والی کے پاس ضرورت سے  زائد اتنا مال یا سامان موجودنہیں  جس کی مالیت ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے برابر یا اس سے زیادہ ہو تو اس پر قربانی واجب نہیں ہوگی۔

الدر  المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه. ولو العقار وقفا، فإن وجب له في أيامها نصاب تلزم....."

(کتاب الاضحیۃ،ج6،ص312،ط؛سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411102525

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں