بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرائے پر دی ہوئی دکانوں کی زکات کا حکم


سوال

میں نے ایک پلاٹ شادی ہال بنانے کی غرض سے خریدا تھا،  اب اس پلاٹ پر  4  دکانیں بنائی  ہیں، ایک دکان پر اپنی اسٹیٹ ایجنسی کھولی ہے اور باقی 3 دکانیں کرائے پر دے دی ہیں،  اب سوال یہ ہے کہ اس کی زکات کیسے ادا کی جائے؟ پلاٹ مع دکانوں کی کل قیمت کی زکات ادا کرنی ہوگی یا 3 دکانوں سے حاصل ہونے والے کرائے  کی زکات ادا کرنی ہوگی؟

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں آپ کے مملوکہ  پلاٹ اور کرائے پر دی ہوئی دکانوں کی مالیت پر زکات واجب نہیں ہوگی،  کیوں کہ  پلاٹ، زمین، دکان اور مکان وغیرہ میں زکات واجب ہونے کے لیے تجارت (نفع کے حصول کے لیے آگے بچنے) کی نیت سے خریدنا شرط ہے، البتہ مذکورہ دکانوں سے کرائے وغیرہ کی مد میں حاصل ہونے والی آمدنی (رقم)  اگر تنہا یادیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے، تو سالانہ ڈھائی فیصد زکات کی ادائیگی واجب ہوگی۔ اگر آپ پہلے سے صاحبِ نصاب ہوں تو  دیگر اموال کی زکات کی ادائیگی کے وقت اس رقم کی زکات ادا کرنا بھی لازم ہوگا، ورنہ جس وقت صاحبِ نصاب بنے ہوں اس وقت سے سال پورا ہونے  پر جتنی رقم موجود ہو، اس وقت تک واجب الادا اخراجات یا قرض منہا کرکے ، زکات کی ادائیگی لازم ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 267):

"(أو نية التجارة) في العروض".

الفتاوى الهندية (1/ 179):

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصاباً من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين۔ وتعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

وفیه أیضاً:

"و من کان له نصاب فاستفاد فی أثناء الحول مالاً من جنسه، ضمه إلی ماله وزکاه سواء کان المستفاد من نمائه أولا، وبأي وجه استفاد ضمه ... " الخ

(هندیة، کتاب الزکاة ۱/۱۷۵ ط رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144209200133

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں