بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کے پلاٹ سے حاصل ہونے والے کرایہ پرزکاۃ کا حکم


سوال

مجھے اپنی ملکیت کے پلاٹ کے حوالے سے شرعی راہ نمائی درکار ہے، میرے دو گھر ہیں، ایک رہائش کے لیے استعمال ہو رہا ہے اور دوسرا کرایہ پر ہے، ان دونوں مکان کے علاوہ میرے دو رہائشی پلاٹ بھی ہیں جو میں نے اپنے پانچ بچوں کے لیے الگ کر رکھے ہیں، مجھے یہ معلوم کرنا ہے کہ ان دو پلاٹ کی زکاۃ لازم ہے یا نہیں؟  اگر لازم ہے تو کیا میں اپنے بچوں کو یہ کہہ سکتا ہوں کہ  میرے انتقال کے بعد اگر تم انہیں بیچو تو زکاۃ ادا کر دینا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو دورہائشی پلاٹ اپنے  بچوں کے لیے رکھے ہیں تو ان دونوں پلاٹوں کی زکاۃنہ تو سائل پر لازم ہے اور نہ ہی سائل کے بچوں پر لازم ہے،اسی طرح سائل جو ایک گھر اپنی رہائش کے لیے استعمال کررہاہےاس پر بھی زکاۃ نہیں ہے۔

البتہ سائل نے  جو گھر کرایہ پردیاہواہےاس  کی مالیت پرتو زکاۃ نہیں ہے،لیکن اس سے حاصل ہونے والی آمدن یعنی  کرایہ پر، جب وہ خود نصاب کو پہنچے یا دیگر مال نصاب کے بقدر موجود ہو تو سال گزرنے پر جو رقم موجود ہو اس پر زکوۃ لازم ہوگی اور سال کے دوران جو رقم استعمال ہوجائے اس پر زکوۃ لازم نہیں ہوگی ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."

(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج1،ص:172،ط:رشيديه)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

"إذا آجر داره أو عبده بمأتي درهم لا تجب الزكوة ما لم يحل الحول بعد القبض في قول ابي حنيفةرحمه الله تعالي، فإن كانت الدار والعبد للتجارة وقبض أربعين درهمابعد الحول، كان عليه درهم بحكم الحول الماضي قبل القبض؛لأن أجرة دار التجارة وعبد التجارةبنزلة ثمن التجارةفي الصحيح من الرواية."

(كتاب الزكوة، فصل في مال التجارة، ج:1، ص:253، ط: رشيديه)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"الزكاة واجبة في عروض التجارة كائنةً ما كانت إذا بلغت قيمتها نصابًا من الورق والذهب، كذا في الهداية. ويقوم بالمضروبة، كذا في التبيين. و تعتبر القيمة عند حولان الحول بعد أن تكون قيمتها في ابتداء الحول مائتي درهم من الدراهم الغالب عليها الفضة، كذا في المضمرات."

(كتاب الزكوة، الباب الثالث فى زكوة الذهب، الفصل فى العروض، ج:1، ص:179، ط:مكتبه رشيديه)

وفي الفقه الإسلامي وأدلته:

"‌‌المطلب الأول ـ زكاة العمارات والمصانع ونحوها:

اتجه رأس المال في الوقت الحاضر لتشغيله في نواحٍ من الاستثمارات غير الأرض والتجارة، وذلك عن طريق إقامة المباني أو العمارات بقصد الكراء، والمصانع المعدة للإنتاج، ووسائل النقل من طائرات وبواخر (سفن) وسيارات، ومزارع الأبقار والدواجن وتشترك كلها في صفة واحدة هي أنها لا تجب الزكاة في عينها وإنما في ريعها وغلتها أو أرباحها."

(‌‌الباب الرابع: الزكاة وأنواعها،ج:3،ص:1947،ط:دار الفكر،دمشق)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144407101867

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں