بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کرایہ کے گھر پر نہیں بلکہ کرایہ پر زکات لازم ہوتی ہے


سوال

میں نے ایک گھر لیا ہے، اس کو کرایہ پر دیا ہوا ہے، آیا زکات کرایہ پر آئے گی یا کرایہ کے گھر پر؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائل نے جو گھر مستقبل میں فروخت کرنے کی نیت سے نہیں خریدا، بلکہ استعمال  کے لیے یا کرایہ وغیرہ پر دینے  کے لیے خریدا  اور   خریدکر  کرایہ پر دیاہے اس کے گھرکی مالیت پر زکاۃ نہیں ہے،  البتہ اس گھر  سے حاصل ہونے والے کرایہ کی رقم تنہا یادیگر اموال کے ساتھ مل کر نصاب کو پہنچ جائے، تو  زکاۃ کا سال مکمل ہونے پر جو رقم موجود ہو اس کی زکات ادا کرنا لازم ہوگی،  اور سال بھر میں جتنا کرایہ استعمال کرلیا اس پر کوئی زکاۃ لازم نہیں ہوگی۔

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"(ومنها فراغ المال) عن حاجته الأصلية فليس في دور السكنى وثياب البدن وأثاث المنازل ودواب الركوب وعبيد الخدمة وسلاح الاستعمال زكاة."

(كتاب الزكاة،الباب الأول في تفسير الزكاة وصفتها وشرائطها،ج1،ص:172،ط:رشيدية)

فتاوی قاضی خان میں ہے:

"إذا آجر داره أو عبده بمأتي درهم لا تجب الزكوة ما لم يحل الحول بعد القبض في قول ابي حنيفةرحمه الله تعالي، فإن كانت الدار والعبد للتجارة وقبض أربعين درهمابعد الحول، كان عليه درهم بحكم الحول الماضي قبل القبض؛لأن أجرة دار التجارة وعبد التجارةبنزلة ثمن التجارةفي الصحيح من الرواية."

(كتاب الزكوة، فصل في مال التجارة، ج:1، ص:253، ط: رشيدية)

فقط  و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144403101314

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں