بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خنزیر کے دودھ سے پرورش پانے والے بکرے کی قربانی کاحکم


سوال

خنزیر یعنی سور کے دودھ سے پرورش پانے والے بکرے کی قربانی کا حکم  کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  حیوانات شرعی احکام کے مکلف نہیں، اسی لیے حلال و حرام، نجس و طاہر وغیرہ اَحکام کا تعلق و تصور انسانوں کے لیے ہے حیوانات کے لیے نہیں،لہذا حیونات ایسی چیزیں کھاسکتے ہیں جو مسلمان کے لیے جائز و حلال نہیں، (مثلاً: مرغی کیڑے مکوڑے کھاکر پلتی بڑھتی ہے)  تاہم اگر حلال جانور گندگی و نجاست کھاتا ہو  اور اس کی وجہ سے اس کے جسم میں بدبو پیدا ہوجائے تو اس کے بارے میں حکم یہ ہے کہ قربانی سے چند ایام پہلے اسے باندھ دیا جائے اور اسے حلال و طاہر خوراک دی جائے، تا آں کہ اس کے جسم سے بدبو ختم ہوجائے۔ خلاصہ یہ کہ حیوانات کی خوراک کو حلت و حرمت کے ان اسباب و تناظر میں دیکھنا درست نہیں جس طرح انسان کی خوراک سے بحث کی جاتی ہے۔

 صورتِ مسئولہ میں خنزیر کے دودھ سے پرورش پانے والا بکرا حلال ہے ،اور اس کی قربانی بھی جائز ہے؛ کیوں کہ خوراک کی حلت و حرمت کاحکم حیوانات پر لاگو نہیں ہوتا، اگر اس کے جسم میں بدبو ہو تو  قربانی کر نے  سے پہلے    چند روز تک اسے  پاک حلال چارہ دینا چاہیے تاکہ بدبو ختم ہو جائے ۔

حدیث شریف میں ہے :

"عن نافع أن عبد الله بن عمر ، رضي الله عنهما أخبره أن الناس نزلوا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم أرض ثمود الحجر فاستقوا من بئرها واعتجنوا به فأمرهم رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يهريقوا ما استقوا من بئرها، وأن يعلفوا الإبل العجين وأمرهم أن يستقوا من البئر التي كان تردها الناقة".

(بخاری شریف،کتاب احادیث الانبیاء،149/4،بالمطبعة الكبرى الأميرية)

فتاوي هندیہ ميں هے:

"الجدي إذا كان يربى بلبن الأتان، والخنزير إن اعتلف أياما فلا بأس لأنه بمنزلة الجلالة والجلالة إذا حبست أياما فعلفت لا بأس بها فكذا هذا، كذا في الفتاوى الكبرى والله أعلم".

(کتاب الذبائح،290/5،المطبعة الكبرى الأميرية)

بدائع الصنائع ميں هے :

"‌والحكم ‌متعلق ‌بالنتن؛ ولهذا قال أصحابنا في جدي ارتضع بلبن خنزير حتى كبر: إنه لا يكره أكله؛ لأن لحمه لا يتغير ولا ينتن فهذا يدل على أن الكراهة في الجلالة لمكان التغير والنتن لا لتناول النجاسة ولهذا إذا خلطت لا يكره وإن وجد تناول النجاسة؛ لأنها لا تنتن فدل أن العبرة للنتن لا لتناول النجاسة، والأفضل أن تحبس الدجاج حتى يذهب ما في بطنها من النجاسة".

(کتاب الذبائح،40/5،دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411101637

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں