بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کن صورتوں میں امام کی متابعت جائز نہیں ہے؟


سوال

1۔امام اگر غلط جگہ پر سجدہ سہو کرلے تو کیا مقتدی اس غلط جگہ سجدہ سہو کرنے پر امام کی اتباع کرے گا یا نہیں؟

2۔ وہ کون سے امور ہیں جن میں مقتدی کے لیے امام کی متابعت جائز نہیں ہے؟

جواب

1۔اگرامام پر سجدۂ سہو واجب نہیں تھاتو محض شک اور شبہ کی وجہ سے سجدہ سہو نہیں کرنا چاہیے، اور اگر غلطی سے سجدہ سہو کرلیا  اورمقتدیوں نے بھی  ساتھ سجدہ کرلیاتو سب کی  نماز ہوگئی، دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں  ہے۔ تاہم آئندہ محض شک اور شبہ میں سجدہ سہو نہ کرے۔

البتہ امام کے ساتھ سجدہ سہو کرنے کی صورت میں مسبوق کے لیے حکم یہ ہے کہ وہ سجدہ سہو کا سلام نہ پھیرے، سجدے اور تشہد میں امام کی متابعت کرے۔

خلاصة الفتاوى  میں ہے:

"إذا ظنّ الإمام أنّه عليه سهواً فسجد للسهو وتابعه المسبوق في ذلك، ثمّ علم أنّ الامام لم يكن عليه سهو، فيه روايتان ... وقال الإمام أبو حفص الكبير: لايفسد، والصدر الشهيد أخذ به في واقعاته، وإن لم يعلم الإمام أنّ ليس عليه سهو لم يفسد صلاة المسبوق عندهم جميعاً."

  (163/1،ط:امجد اكادمي)

فتاویٰ شامی  میں ہے:

"ولو ‌ظن ‌الإمام السهو فسجد له فتابعه فبان أن لا سهو فالأشبه الفساد(قوله فالأشبه الفساد) وفي الفيض: وقيل لا تفسد وبه يفتي. وفي البحر عن الظهيرية قال الفقيه أبو الليث: في زماننا لا تفسد لأن الجهل في القراء غالب. اهـ. والله أعلم".

(الدرالمختار مع   رد المحتار ،كتاب الصلواة،باب الامامة  (1/ 599) ط:سعيد)

امدادالاحکام میں ہے:

"امام اگریہ سمجھ کرسجدہ کرے کہ میرے اوپرسجدہ سہو ہے، پھربعدمیں معلوم ہوا کہ سجدہ سہو نہ تھا تو امام کی اور مدرکین کی نماز تو صحیح ہوجائے گی، البتہ مسبوق کی نماز میں اختلاف ہے کہ مسبوق کی نماز صحیح ہوگی یا نہیں، مشہور روایت یہ ہے کہ فاسد ہوجائے گی اور ایک روایت یہ ہے کہ اس کی بھی صحیح ہے، پس مسبوق کے لیے احوط اعادہ ہے، اور گنجائش اس کی بھی ہے کہ اعادہ نہ کرے ، کیونکہ فتویٰ اس پر ہے کہ مسبوق کی نماز بھی صحیح ہے ".

(امدادالاحكام،كتاب الصلواة،باب مايفسد الصلاة  ومايكره فيها،562/1ط:دارالعلوم کراچی)

2۔مقتدی  کے  لیے  تمام  ارکان  میں  امام  کی  متابعت  ضروری  ہے، کسی  بھی  رکن  میں  امام  کی  مخالفت  جائزنہیں ،اورنہ ہی کسی رکن میں امام سے سبقت کرنا درست ہے۔ اگرنمازمیں امام کے ساتھ کسی بھی رکن میں مخالفت کی یا رکن امام سے پہلے ادا کرلیا اور وہ  رکن  نماز میں پھر ادانہ کیا تو اس  صورت  میں نماز ادا نہیں  ہوگی۔ البتہ چار چیزوں میں  امام کی متابعت نہ کرے۔

عمدۃ الفقہ میں ہے :

’’ چار چیزیں جن میں امام کی متابعت نہ کی جائے،  یعنی اگر امام کرے تو مقتدی اس کی متابعت نہ کرے۔
 1۔ امام جان بوجھ کر نماز جنازہ کی تکبیریں چار سے زیادہ یعنی پانچ کہے.
 2۔جان بوجھ کر عیدین کی تکبیریں زیادہ کہے جب کہ مقتدی امام سے سنتا ہو اور اگر مکبر سے سنے تو ترک نہ کرے کہ شاید اس سے غلطی ہوئی ہو.
 3۔کسی رکن کا زیادہ کرنا مثلاً دو بار رکوع کرنا یا تین بار سجدہ کرنا.
4۔جب کہ امام بھول کر پانچویں رکعت کے  لیے کھڑا ہو جائے تو مقتدی کھڑا نہ ہو،  بلکہ امام کا انتظار کرے،  اگر امام پانچویں رکعت کے سجدہ کر لینے سے پہلے لوٹ آیا اور وہ قعدہ  آخرہ کر چکا تھا تو مقتدی بھی اس کا ساتھ دے اور اس کے ساتھ سلام پھیر دے اور اس کے ساتھ سجدہ سہو کرے اور اگر امام نے پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو مقتدی تنہا سلام پھیرے اور اگر امام نے قعدہ آخرہ نہیں کیا تھا اور وہ پانچویں رکعت کے سجدے سے پہلے لوٹ آیا تب بھی مقتدی اس کا ساتھ دے اور اگر پانچویں رکعت کا سجدہ کر لیا تو امام اور مقتدی سب کی نماز فاسد ہو جائے گی سب نئے سرے سے پڑھیں گے‘‘. (عمدۃ الفقہ ، سید زوار حسین شاہ صاحب : 2/ 218 زوار اکیڈمی پبلیکشنز)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومتابعة الإمام يعني في المجتهد فيه لا في المقطوع بنسخه أو بعدم سنيته كقنوت فجر....

ثم ذكر ما حاصله أنه تجب متابعته للإمام في الواجبات فعلا، وكذا تركا إن لزم من فعله مخالفته الإمام في الفعل كتركه القنوت أو تكبيرات العيد أو القعدة الأولى أو سجود السهو أو التلاوة فيتركه المؤتم أيضا، وأنه ليس له أن يتابعه في البدعة والمنسوخ، وما لا تعلق له بالصلاة فلا يتابعه لو زاد سجدة أو زاد على أقوال الصحابة في تكبيرات العيدين أو على أربع في تكبيرات الجنازة أو قام إلى الخامسة ساهيا، وأنه لا تجب المتابعة في السنن فعلا وكذا تركا فلا يتابعه في ترك رفع اليدين في التحريمة والثناء وتكبير الركوع والسجود والتسبيح فيهما والتسميع، وكذا لا يتابعه في ترك الواجب القولي الذي لا يلزم من فعله المخالفة في واجب فعلي كالتشهد والسلام وتكبير التشريق، بخلاف القنوت وتكبيرات العيدين إذ يلزم من فعلهما المخالفة في الفعل وهو القيام مع ركوع الإمام. ...."

 (كتاب الصلاة،باب صفة الصلاة،واجبات الصلاة،1/ 470،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144312100444

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں