بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کن رشتہ دارون کو زکات دی جاسکتی ہے؟ غیر مسلموں کی مدد زکات کی رقم سے کرنا


سوال

1۔ کیا صدقہ یا زکوٰۃ اپنے کسی عزیز رشتے دار سے لیا  یادیا  جاسکتا ہے؟ اور یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ زکوٰۃ کی یا صدقے کی رقم ہے؟

2۔ کسی غیر مسلم کی مدد  زکوٰۃ کی رقم کی جاسکتی ہے ؟

جواب

1۔واضح رہے کہ اپنے اصول (والدین، دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) وفروع (اولاد، اور ان کی نسل یعنی پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ) کو اور اسی طرح میاں بیوی کا ایک دوسرے کوصدقات واجبہ(زکات،صدقہ فطر ، عشر ،کفاراتِ نذروغیرہ )دینا جائز نہیں ہے،  اس کے علاوہ دیگر رشتہ دار مثلًا بھائی، بہن، چچا، پھوپھی، ماموں خالہ وغیرہ اور ان کی اولاد  کو زکاۃ دینا جائز ہے (بشرطیکہ مستحقِ زکات ہوں)، بلکہ یہ دوہرے ثواب کا باعث ہے، اس لیے کہ اس میں زکات کی ادائیگی کے ساتھ صلہ رحمی بھی ہے، جب کہ نفلی صدقات کسی (رشتہ دار ،غیر رشتہ دار ، مالدار ، غریب )کو بھی دیے جاسکتے ہیں ،نیز کسی مستحقِ زکات شخص  کو زکات کی رقم دیتے ہوئے یہ بتانا ضروری نہیں ہے کہ یہ زکات کی رقم ہے، بلکہ مستحقِ زکات  کو زکات کی رقم ہدیہ، تحفہ، قرض یا کسی بھی عنوان سے دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی،  تاہم زکات ادا کرنے والے کے دل میں زکات  دینے کی نیت ہونا ضروری ہے۔

ملحوظ رہے کہ زکات  اس شخص کو دی جاسکتی ہے  جس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ  اصلیہ سے زائد  نصاب   (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر  رقم نہ ہو، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت) کے برابر بنتی ہے اور نہ  ہی  وہ سید، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی، اگر کسی شخص کے  ساڑھے باون تولہ چاندی  یا  اس کے برابررقم ہو، یا ساڑھے سات تولہ سونا ہو، یا ضرورت سے زائد سامان ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو، یا ان میں بعض کا مجموعہ ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر ہو تو اس کو زکات دینا اور اس کے لیے زکات لینا جائز نہیں ہے۔

بدائع الصنائع  میں ہے :

"ويجوز دفع الزكاة إلى من سوى الوالدين والمولودين من الأقارب ومن الإخوة والأخوات وغيرهم؛ لانقطاع منافع الأملاك بينهم".

(كتاب الزكات،2 / 50، ط : رشيديه)

وفیہ ایضا:

"ومنها: أن لاتكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكًا من الفقير من كل وجه بل يكون صرفًا إلى نفسه من وجه".

(كتاب الزكات ، 2/ 49 ، ط: رشیدیه)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومن أعطى مسكيناً دراهم وسماها هبةً أو قرضاً ونوى الزكاة فإنها تجزيه، وهو الأصح، هكذا في البحر الرائق ناقلاً عن المبتغى والقنية". 

 (كتاب الزكات، الباب الأول ، 1/ 171، ط: رشيديه )

2۔غیر مسلم کی مدد زكات اور صدقات واجبہ  كي   رقم سے کرنا جائز نہیں ، البتہ  صدقات نافلہ کے ذریعہ مدد کی جاسکتی ہے ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن يكون مسلما فلا يجوز صرف الزكاة إلى الكافر بلا خلاف لحديث معاذ - رضي الله عنه - «خذها من أغنيائهم وردها في فقرائهم» أمر بوضع الزكاة في فقراء من يؤخذ من أغنيائهم وهم المسلمون فلا يجوز وضعها في غيرهم."

(كتاب الزكات، 2/ 49 ، ط: رشیدیه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101936

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں