بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کن لوگوں پر جنازہ کی نماز نہیں پڑھی جائے گی؟


سوال

کن لوگوں پر  جنازہ  کی  نماز نہیں  پڑھی جاتی  ہے ؟ 

جواب

نمازِ جنازہ کے صحیح ہونے کے لیے دو قسم کی شرطیں ہیں :

پہلی قسم کی وہ شرطیں جو نماز پڑھنے والوں سے تعلق رکھتی ہیں، نمازِ جنازہ کے لیے وہی شرائط ہیں جو عام نمازوں کی ہیں،  یعنی طہارت، ستر عورت، استقبالِ قبلہ اور نیت۔

  البتہ دو فرق ہیں: (1) جنازے کے لیے وقت متعین نہیں ہے، لہٰذا وقت شرط نہیں، بس ممنوع اوقات میں پڑھنا منع ہے، الا یہ کہ عین اسی وقت جنازہ حاضر ہو۔  (2)   جنازے  کی  نماز  نکلنے کا اندیشہ ہو، (مثلاً: نمازِ جنازہ ہورہی ہو  اور  وضو کرنے کی صورت  میں گمان یہ ہو کہ نماز ختم ہوجائے گی) تو پانی قریب ہونے کے باوجود تیمم کرکے نمازِ جنازہ ادا کرنے کی اجازت ہے۔ بخلاف اور نمازوں کے کہ ان میں اگر وقت کے چلے جانے کا خوف ہو تب بھی تیمم جائز نہیں ۔

دوسری قسم کی شرطیں وہ ہیں جن کا تعلق میت سے ہے۔ میت سے مراد وہ شخص ہے جو زندہ پیدا ہو کر مر گیا ہو۔ اگر مرا ہوا بچہ پیدا ہوا ہو تو اس پر نمازِ جنازہ کا حکم نہیں ۔ وہ شرطیں یہ ہیں :

1۔ میت کا مسلمان ہونا۔ پس کافر اور مرتد  کی نماز صحیح نہیں ۔

2۔ میت کے بدن اور کفن کا نجاستِ حقیقی اور حکمی سے پاک ہونا۔  اگر نجاستِ حقیقی اس کے بدن سے کفنانے کے بعد خارج ہوئی ہو اور اس سبب سے اس کا بدن یا کفن  نجس ہوجائے تو مضائقہ نہیں ،  نماز درست ہے۔

3۔ میت کے جسم کے واجب الستر حصہ کا پوشیدہ ہونا۔ اگر میت بالکل برہنہ ہو تو اس کی نماز درست نہ ہوگی۔

4۔ میت کا نماز پڑھنے والے کے آگے ہونا۔ اگر میت نماز پڑھنے والے کے پیچھے ہو تو درست نہیں ۔

5. میت کا یا جس چیز پر میت ہو اس کا زمین پر رکھا ہوا ہونا۔ اگر میت کو لوگ اپنے ہاتھوں پر اٹھائے ہوں یا کسی گاڑی یا جانور پر ہو اور اسی حالت میں اس کی نماز پڑھی جائے تو صحیح نہ ہوگی۔

6. میت کا وہاں موجود ہونا۔ اگر میت  وہاں موجود  نہ ہو تو نماز صحیح نہ ہوگی۔ لہٰذا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا صحیح نہیں ہے۔ میت کے موجود ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کا کل جسم یا اکثر حصہ جسم اگرچہ سر کے بغیر ہو یا نصف حصہ مع سر کے موجود ہو۔ اگر اس قدر میت موجود نہ ہو ، مثلاً: صرف سر موجود ہو یا نصف حصہ جسم سر کے بغیر موجود ہو تو اس پر نماز جنازہ صحیح نہیں ہے۔

اگر مذکورہ بالا شرائط پائیں جائیں تو اس شخص کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی،   تاہم بعض ایسے  لوگ  ہیں کہ اہانت اور جرم کی حوصلہ شکنی کی غرض سے نہ ان پر نماز پڑھی جائے گی،اور نہ ان کو غسل دیا جائے گا :

(1)  اسلامی حکومت سے بغاوت کرنے والا۔

(2) ڈاکو ،  اگر  یہ دونوں عین لڑائی میں مرجائیں تو ان کو غسل نہیں دیا جائے اور نہ ان پر نماز پڑھی جائے گی۔

(3) اپنی قوم کو ظالم جانتے ہوئے محض عصبیت میں اس کی مدد کرنے والے۔

(4) مکابر یعنی جو رات میں ہتھیار لے کر بے قصور لوگوں کو ڈراتا دھمکاتاہو،  یا جو شخص لوگوں کے گلے دَبادیتا ہو ، والدین یا ان میں سے ایک کا قاتل ، یہ بھی باغی کے حکم میں ہیں۔

لیکن اگر یہ لوگ اپنی موت آپ پر جائیں تو ان کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی، البتہ اس میں قوم کے معزز علماء اور پیشوا لوگ شرکت نہ کریں۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 210):

"(وهي فرض على كل مسلم مات خلا) أربعة (بغاة، و قطاع طريق) فلايغسلوا، و لايصلى عليهم (إذا قتلوا في الحرب) ولو بعده صلى عليهم لأنه حد أو قصاص (وكذا) أهل عصبة و (مكابر في مصر ليلًا بسلاح وخناق) خنق غير مرة فحكمهم كالبغاة.(من قتل نفسه) ولو (عمدًا يغسل ويصلى عليه) به يفتى وإن كان أعظم وزرا من قاتل غيره. ورجح الكمال قول الثاني بما في مسلم «أنه عليه الصلاة والسلام أتي برجل قتل نفسه فلم يصل عليه»

 (قوله: خلا أربعة) بالجر على أن خلا حرف استثناء (قوله: بغاة) هم قوم مسلمون خرجوا عن طاعة الإمام بغير حق (قوله: فلايغسلوا إلخ) في نسخة فلايغسلون وهي أصوب، إنما لم يغسلوا ولم يصل عليهم إهانة لهم وزجرًا لغيرهم عن فعلهم. وصرح بنفي غسلهم لأنه قيل يغسلون ولا يصلى عليهم للفرق بينهم وبين الشهيد كما ذكره الزيلعي وغيره، وهذا القيل رواية. وفيه إشارة إلى ضعفها، لكن مشى عليها في الدرر والوقاية. وفي التتارخانية: و عليه الفتوى (قوله: ولو بعده إلخ) قال الزيلعي: وأما إذا قتلوا بعد ثبوت يد الإمام عليهم فإنهم يغسلون ويصلى عليهم، وهذا تفصيل حسن أخذ به كبار المشايخ لأن قتل قاطع الطريق في هذه الحالة حد أو قصاص، ومن قتل بذلك يغسل ويصلى عليه، وقتل الباغي في هذه الحالة للسياسة أو لكسر شوكتهم فينزل منزلته لعود نفعه إلى العامة اهـ وقوله أو قصاص أي بأن كان ثم ما يسقط الحد كقطعه على محرم ونحوه مما ذكر في بابه، وقد علم من هذا التفصيل أنه لو مات أحدهم حتف أنفه قبل الأخذ أو بعده يصلى عليه كما بحثه في الحلية، وقال: ولم أره صريحًا.

قلت: وفي الأحكام عن أبي الليث: ولو قتلوا في غير الحرب أو ماتوا يصلى عليهم اهـ وهو صريح في المطلوب (قوله: وكذا أهل عصبة) بضم فسكون، وفي نسخة عصبية.

وفي نهاية ابن الأثير: العصبية والتعصب: المحاماة والمدافعة. والعصبي: من يعين قومه على الظلم، والذي يغضب لعصبته، ومنه الحديث «ليس منا من دعا إلى عصبية أو قاتل عصبية» قال في شرح درر البحار: وفي النوازل: وجعل مشايخنا المقتولين في العصبية في حكم أهل البغي على هذا التفصيل. وفي المغني: جعل الدروازكي والكلاباذي كالباغي وكذا الواقفون الناظرون إليهما إن أصابهم حجر أو غيره وماتوا في تلك الحالة، ولو ماتوا بعد تفرقهم يصلى عليهم. اهـ. قال ط: ومثلهم سعد وحرام بمصر وقيس ويمن ببعض البلاد اهـ.
أقول: والظاهر أن هذا حيث كان البغي من الفريقين، فلو بغى أحدهما على الآخر وقصد الآخر المدافعة عن نفسه بالقدر الممكن يكون المدافع شهيدا. وفي شرح منلا مسكين ما يؤيده فراجعه (قوله: ومكابر في مصر ليلا بسلاح) كذا في الدرر والبحر وغيرهما. والمكابر: بالباء الموحدة المتغلب إسماعيل، والمراد به من يقف في محل من المصر يتعرض لمعصوم. والظاهر أن هذا مبني على قول أبي يوسف من أنه يكون قاطع طريق إذا كان في المصر ليلا مطلقا أو نهارا بسلاح وعليه الفتوى كما سيأتي في بابه إن شاء الله - تعالى، فيعطى أحكام قاطع الطريق في غير المصر من أنه إذا ظهر عليه قبل أخذ شيء وقتل فإنه يحبس حتى يتوب، وإن أخذ مالا قطع من خلاف وإن قتل معصوما قتل حدا على ما سيأتي تفصيله في محله، فحيث كان حده القتل لا يصلى عليه، وبما قررناه ظهر أن قوله بسلاح غير قيد لأنه إذا وقف في المصر ليلا لا فرق بين كونه قاتلا بسلاح أو غيره كحجر أو عصا والله أعلم (قوله خنق غير مرة) هو مفاد صيغة المبالغة، وقيده المصنف في باب البغاة بما إذا كان ذلك في المصر. وعبارته في الشرح: ومن تكرر الخنق بكسر النون منه في المصر أي خنق مرارا، ذكره مسكين قتل به سياسة لسعيه بالفساد، وكل من كان كذلك يدفع شره بالقتل وإلا بأن خنق مرة لا لأنه كالقتل بالمثقل، وفيه القود عند غير أبي حنيفة اهـ أي وأما عنده ففيه الدية على عاقلته كالقتل بالمثقل وظاهر قوله بأن خنق مرة أن التكرار يحصل بمرتين (قوله: فحكمهم كالبغاة) كذا في البحر والزيلعي: أي حكم أهل عصبية ومكابر وخناق حكم البغاة في أنهم لا يغسلون ولا يصلى عليهم. وأما في الدرر من قوله: وإن غسلوا: أي البغاة والقطاع والمكابر، فإنه مبني على الرواية الأخرى، وقدمنا ترجيحها."

وفیه أیضًا (2/ 212):

"(لا) يصلى على (قاتل أحد أبويه) إهانة له، وألحقه في النهر بالبغاة.

(قوله: لايصلى على قاتل أحد أبويه) الظاهر أن المراد أنه لايصلى عليه إذا قتله الإمام قصاصًا، أما لو مات حتف أنفه يصلى عليه كما في البغاة و نحوهم، و لم أره صريحًا فليراجع (قوله: و ألحقه في النهر بالبغاة) أي فلايعدّ خامسًا هكذا فهمت، ثم رأيته في ط، لكن فيه أن عبارة النهر هكذا: و العصبية كالبغاة، و من هذا النوع الخناق و قاتل أحد أبويه اهـ و عليه فيكون المستثنى أقل من أربعة تأمل."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144110200269

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں