بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کِن الفاظ سے طلاق واقع ہوجاتی ہے؟


سوال

 طلاق کن الفاظ سے ہوجاتی ہےیا صرف طلاق کے لفظ سے ہی ہوتی ہے ؟وضاحت کردیجیے!

جواب

واضح رہے کہ  بیوی پر طلاق واقع ہونے کے لیے طلاق کے الفاظ کا ہونا ضروری ہے، زبان سے اگر طلاق کے الفاظ نہ کہے اور محض دل میں خیال یا وسوسہ آجائے  تو اس سے طلاق واقع نہیں ہوتی، اسی طرح    کسی بھی لفظ سے طلاق کی نیت کرنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی ہے، بلکہ اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ لفظ طلاق کی صلاحیت رکھتا ہو، اور اس میں طلاق کا احتمال موجود ہو،  ایسا لفظ جو طلاق کا احتمال نہیں رکھتا اس سے اگر طلاق دینے کی نیت کی بھی تو  کوئی طلاق واقع نہیں ہوتی۔

 طلاق کے الفاظ دو قسم کے ہوتے ہیں: (1) صریح (2) کنایہ 

صریح :  سے مراد وہ لفظ ہے جس کاعمومی استعمال طلاق ہی کے لیے ہو،جیسے لفظ طلاق ہے،یہ طلاق کے وقوع میں صریح ہے ، اگر کسی نے بیوی کو صریح الفاظ کے ساتھ طلاق دے دی تو خواہ وہ الفاظ  کسی بھی مقصد  (ڈرانے، دھمکانے، مذاق وغیرہ) کے لیے  کہے ہوں ان سے بغیر نیت کے طلاق واقع ہوجاتی ہے۔

کنایہ :   سے مراد وہ الفاظ ہیں جو اصلاً طلاق کے لیے وضع نہ ہوں، بلکہ ان میں طلاق اور غیر طلاق دونوں کا احتمال ہو، ان الفاظِ کنائی سے طلاق واقع ہونے کے لیے یہ ضروری ہے کہ طلاق کا معنی مراد لیا جائے،  بعض الفاظ میں یہ معنی نیت ہی کے ذریعے مراد لیا جاتا ہے  اور بسا اوقات مذاکرۂ  طلاق، دلالتِ حال، عرف اور الفاظِ کنائی کے صریح بن جانے کی وجہ سے بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے،  الفاظِ کنائی بہت سارے ہیں، یہاں سب کا احاطہ و شمار ممکن نہیں ہے، اور کنایہ الفاظ سے   عمومًا طلاقِ  بائن واقع ہوتی ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(‌صريحه ما لم يستعمل إلا فيه) ولو بالفارسية (كطلقتك وأنت طالق ومطلقة) بالتشديد قيد بخطابها، لأنه لو قال: إن خرجت يقع الطلاق أو لا تخرجي إلا بإذني فإني حلفت بالطلاق فخرجت لم يقع لتركه الإضافة إليها (ويقع بها) أي بهذه الألفاظ وما بمعناها من الصريح ويدخل نحو طلاغ وتلاغ وطلاك وتلاك أو " ط ل ق " أو " طلاق باش " بلا فرق بين عالم وجاهل، وإن قال تعمدته تخويفا لم يصدق قضاء إلا إذا أشهد عليه قبله وبه يفتى."

(كتاب الطلاق، باب صريح الطلاق، ج:3، ص:247-249، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"‌‌باب الكنايات (كنايته) عند الفقهاء (ما لم يوضع له) أي الطلاق (واحتمله) وغيره (ف) الكنايات (لا تطلق بها) قضاء (إلا بنية أو دلالة الحال) وهي حالة مذاكرة الطلاق أو الغضب...ونحو خلية برية حرام بائن)ففي حالة الرضا) أي غير الغضب والمذاكرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثيرا (على نية) للاحتمال والقول لهبيمينه في عدم النية ويكفي تحليفها له في منزله، فإن أبى رفعته للحاكم فإن نكل فرق بينهما مجتبى...(وفي الغضب) توقف (الأولان) إن نوى وقع وإلا لا."

(‌‌كتاب الطلاق، ‌‌باب الكنايات، ج:3، ص:296-300، ط:سعيد)

وفيه أيضاً:

"«وركنه لفظ مخصوص». 

(قوله: وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس و الإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.و به ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق و لم يذكر لفظا لا صريحًا و لا كنايةً لايقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، و كذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لايقع به طلاق و إن نواه."

(کتاب الطلاق ج:3، ص:230، ط :سعید)

اللباب في شرح الكتاب میں ہے:

"والكنايات ثلاثة أقسام: قسم منها يصلح جوابا ولا يصلح رداً ولا شتما، وهي ثلاثة ألفاظ: أمرك بيدك، اختاري، اعتدي، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا وشتما ولا يصلح رداً، وهي خمسة ألفاظ: خلية، برية، بتة، بائن، حرام، ومرادفها، وقسم يصلح جوابا ورداً ولا يصلح سباً وشتما؛ وهي خمسة أيضا: اخرجي، اذهبي، اغربي، قومي، تقنعي، ومرادفها، ففي حالة الرضا لا يقع الطلاق بشيء منها إلا بالنية، والقول قوله في عدم النية، وفي حالة مذاكرة الطلاق يقع بكل لفظ لا يصلح للرد وهو القسم الأول والثاني، وفي حالة الغضب لا يقع بكل لفظ يصلح للسب والرد وهو القسم الثاني والثالث، ويقع بكل لفظ لا يصلح لهما بل للجواب فقط وهو القسم الأول. كما في الإيضاح."

(کتاب الطلاق،  ج:3، ص:44، ط؛ المکتبۃ العلمیہ)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144506101870

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں