نکاح کے بعد اگر عورت چاہے تو بچوں کے لیے (شوہر کو) منع کر سکتی ہے؟ کیا یہ شریعت میں جائز ہے؟ یعنی کچھ گھریلو مسائل، جھگڑے، یا ماں باپ کی ناراضگی کی وجہ سے، یا لڑکی کو ڈر ہو کے اُس کے بچوں کے سامنے اس کی بے عزتی ہوگی ،تو ایسی صورت میں لڑکی مباشرت کرنے سے منع کرنے کا حق رکھتی ہے؟ اس میں کوئی گناہ ہے؟
شوہر کی جنسی فطری ضرورت اور خواہش کی تکمیل بیوی پر لازم ہے، شرعی عذر کے بغیر بیوی کے لیے شوہر کو تسکینِ شہوت سے روکنا جائز نہیں ، احادیث میں ایسی عورت کے لیے سخت وعیدیں آئی ہیں، اور شوہر کو طبعی وشرعی عذر کے بغیرمنع کرنے کی وجہ سے وہ عورت گناہ گار ہوگی۔
لیکن عذر کی صورت میں اگر بیوی شوہر کو منع کرے گی تو گناہ گار نہیں ہوگی، جیسے ماہواری کے ایام، بیماری، یا شوہر کا حدِ اعتدال سے زیادہ ہم بستر ہونا جس کی بیوی میں طاقت نہ ہو یا شوہر کی جانب سے تسکین شہوت کے لیےغیر فطری راستہ اختیار کرنے کا مطالبہ کرنا وغیرہ۔
صورت مسئولہ میں بیوی کا لڑائی جھگڑے کی وجہ سے شوہر کو ہمبستری سے منع کرنا جائز نہیں، بلکہ شوہر کی خواہش پوری کرنی چاہیے، اس سے ان کی باہمی ناراضگی بھی محبت میں بدل جائے گی۔
اسی طرح والدین اگر شوہر کے ساتھ ہمبستری کرنے سے منع کریں، اور کرنے پہ ناراض ہوتے ہوں، تو ان کا یہ حکم شریعت کے خلاف ہے، اور خلاف شرع امور میں والدین کی اطاعت لازم نہیں، لہٰذا ایسی صورت میں بھی بیوی پر لازم ہے کہ شوہر کی بات مانے اور اسے ہمبستری کرنے دے، اور والدین کو چاہیے کہ وہ بیٹی کو منع نہ کریں، اور ان کا اس پر ناراض ہونا بھی بجا نہیں۔ اگر وہ پھر بھی ناراض ہوں تو ان کو ادب احترام اور پیار محبت سے راضی کرے، ان کی ناراضی کی وجہ سے شوہر کی حق تلفی نہ کرے۔
اسی طرح اولاد کی پیدائش سے بچنے کے لیےبھی شوہر کو ہمبستری سے روکنا جائز نہیں، اور یہ اندیشہ کرنا کہ اولاد ہونے سے بیوی کی بے عزتی ہوگی ؛درست نہیں۔
صحیح البخاری میں ہے:
4898 - "عن أبي هريرة قال:قال النبي صلى الله عليه وسلم: (إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها، لعنتها الملائكة حتى ترجع)."
(كتاب النكاح، باب: إذا باتت المرأة مهاجرة فراش زوجها،ط: دار اليمامة- دمشق )
ترجمہ: "جب کوئی عورت اپنے شوہر کے بستر چھوڑ کر رات گزارتی ہے تو فرشتے اس پر لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے۔"
مشكاة المصابيح میں ہے:
"وعن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:إذا دعا الرجل امرأته إلى فراشه فأبت فبات غضبان لعنتها الملائكة حتى تصبح . متفق عليه. وفي رواية لهما قال:والذي نفسي بيده ما من رجل يدعو امرأته إلى فراشه فتأبى عليه إلا كان الذي في السماء ساخطًا عليها حتى يرضى عنها."
( كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ص: 280 ، ط: قديمي)
ترجمہ: "جب کسی شوہر نے اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلایا اور وہ نہ آئی، پھر اسی طرح غصہ میں اس نے رات گزاری تو صبح تک سارے فرشتہ اس عورت پر لعنت کرتے رہتے ہیں۔اور ایک روایت میں ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، جو شخص اپنی بیوی کو اپنے پاس بستر پر بلائے، وہ انکار کردے تو باری تعالی اس سے ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ شوہر اس (بیوی) سے راضی ہوجائے۔"
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(لعنتها الملائكة) : لأنها كانت مأمورة إلى طاعة زوجها في غير معصية قيل: والحيض ليس بعذر في الامتناع لأن له حقا في الاستمتاع بما فوق الإزار عند الجمهور."
(باب عشرۃ النساء، ص:2121، ج:5، ط:دار الفکر)
وفیه أیضاً:
"وعن طلق بن علي قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:إذا الرجل دعا زوجته لحاجته فلتأته وإن كانت على التنور. رواه الترمذي."
(كتاب النكاح، باب عشرة النساء، ص: 281، ط: قديمي)
ترجمہ: "رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی مرد اپنی بیوی کو اپنی حاجت کے لیے بلائے تو وہ ضرور اس کے پاس آئے، اگر چہ تنور پر روٹی بنارہی ہو (تب بھی چلی آئے)۔"
فتاویٰ شامی میں ہے:
"فعلم من هذا كله أنه لا يحل له وطؤها بما يؤدي إلى إضرارها."
(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، 3/ 203/ ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100443
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن