کیا کھڑے ہو کر پانی پینا جائز ہے؟ ہم نے تو ہمیشہ یہی سنا ہے کہ پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے، لیکن میں نے کسی کے بیان میں سنا کہ : جب حضرت علی رضی اللہ عنہ مدینہ سے کوفہ تشریف لائے تو کوفہ کے لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو معیوب سمجھتے تھے،تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر پانی پیا اور ان کو کہا کہ میں نےسناہے کہ آپ لوگ کھڑے ہو کر پانی پینے کو معیوب سمجھتے ہو جب کہ کھڑے ہو کر پانی پینا بھی جائز ہے،تو میراسوال یہ ہےکہ کیاحضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب یہ واقعہ درست ہے؟اور کیا کھڑے ہو کر پانی پیناجائز ہے؟
واضح رہے کہ کھڑے ہو کر پانی پینے کے متعلق کتبِ حدیث میں دونوں طرح کی احادیث مروی ہیں، اُن میں سے بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی ممانعت وارد ہوئی ہے، اور بعض میں کھڑے ہوکر پانی پینے کی اجازت موجود ہے، لہٰذا دونوں جانب کی احادیث کو مدِ نظر رکھتے ہوئے فقہائے کرام نے یہ حکم بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی مجبوری ہو (مثلاً رش ہو یا جگہ کیچڑوالی ہو، یابیٹھنے کے لیے جگہ میسر نہ ہو) تو ایسی صورت میں کھڑے ہوکر پانی پینا بلا کراہت جائز ہے، لیکن بغیر کسی مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پینا اور اس کی عادت بنا لینا مکروہِ تنریہی (یعنی خلافِ ادب) ہے؛ کیوں کہ اس سے انسان کے جسم میں بیماریاں پیدا ہونے اور اس كو ضرر پہنچنے کا اندیشہ ہے؛لہٰذا بیٹھ کر پانی پینا ہی باعثِ خیر و ثواب ہے، لیکن اگر کسی نے بغیر مجبوری کے کھڑے ہوکر پانی پی لیا تب بھی وہ گناہ گار نہیں کہلائے گا اور نہ ہی اُس کی پکڑ ہوگی، بلکہ صرف بیٹھ کر پانی پینے سے جو ثواب ملتا ہے، اس سے محروم ہوجاۓگا۔
جہاں تک سوال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی جانب منسوب مذکورہ واقعے کی بات ہے تو یہ کتبِ حدیث میں سنداًومتناً صراحت کےساتھ موجودہے، لیکن اس عمل کو عمومی اَحوال پر محمول نہیں کیا جاسکتا، دراصل اہلِ کوفہ کھڑے ہوکر پانی پینے کو ناجائز امر سمجھتے تھے، صرف ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہوکر پانی پی کر دکھایا؛ تاکہ ان کے دل و دماغ سے یہ خلجان دور ہوسکے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عمل اس لیے تھا کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ جائز ہے، عادت کے طور پر نہیں تھا۔
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا أبو نعيم: حدثنا مسعر، عن عبد الملك بن ميسرة عن النزال قال: أتى علي رضي الله عنه على باب الرحبة بماء فشرب قائما، فقال: إن ناسا يكره أحدهم أن يشرب و هو قائم، وإني رأيت النبي صلى الله عليه وسلم فعل كما رأيتموني فعلت."
(كتاب الأشربة، باب: الشرب قائما، ج:5، ص:2130، ط: دار ابن كثير)
عمدۃ القاری میں ہے:
"واعلم أنه روي في الشرب قائما أحاديث كثيرة. منها: النهي عن ذلك... ومنها: إباحة الشرب قائما... وقال النووي: إعلم أن هذه الأحاديث أشكل معناها على بعض العلماء، حتى قال فيها أقوالا باطلة، والصواب منها: أن النهي محمول على كراهة التنزيه، وأما شربه قائما فلبيان الجواز، ومن زعم نسخا فقد غلط، فكيف يكون النسخ مع إمكان الجمع، وإنما يكون نسخا لو ثبت التاريح فأنى له ذلك؟ وقال الطحاوي ما ملخصه: أنه صلى الله عليه وسلم أراد بهذا النهي الإشفاق على أمته، لأنه يخاف من الشرب قائما الضرر، وحدوث الداء، كما قال لهم: أما أنا فلا آكل متكئا. انتهى."
(کتاب الحج، باب ماجاء فی زمزم، ج:9، ص:278،279، ط: داراحیاء التراث العربي)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"ولا بأس بالشرب قائما، ولا يشرب ماشيا ورخص للمسافرين، ولا يشرب بنفس واحد، ولا من فم السقاء والقربة؛ لأنه لا يخلو عن أن يدخل حلقه ما يضره، كذا في الغياثية."
(کتاب الکراهیة، الباب الحادي عشر فی الکراهة فی الأکل و مایتصل به، ج:5 ص:341 ط: دارالفکر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما المكروه كراهة تنزيه فإلى الحل أقرب اتفاقا
(قوله: فإلى الحل أقرب) بمعنى أنه لا يعاقب فاعله أصلا، لكن يثاب تاركه أدنى ثواب تلويح، وظاهره أنه ليس من الحلال، ولا يلزم من عدم الحل الحرمة ولا كراهة التحريم، لأن المكروه تنزيها كما في المنح مرجعه إلى ترك الأولى."
(کتاب الحظر و الإباحة، ج:6، ص:337 ط: دارالفکر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144503101581
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن