بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا اعوان قوم پرزکوۃ ہے؟


سوال

1۔ہم لوگ ا عوان  ہیں کیاا عوانوں پر زکات ہوتی ہے؟

2۔ میری بہن شادی شدہ ہے، شادی بھی ا عوان گھرانے میں ہوئی ہے، کیا میں اپنی بہن کو زکات دے سکتا ہوں؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگراعوان قوم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں اور اس  کا شجرہ  نسب بھی محفوظ ہے  تو ان کو زکوۃ دینا اور ان کےلیےزکوۃ لینا جائز نہیں ہے ،ایسے لوگ اگر غریب ہیں امداد کے مستحق ہیں تو ان کو زکوۃ علاوہ باقی ساڑھے  ستانوے  فیصد سے عطیہ دیں ،اور اگر اعوان حضرت علی  رضی اللہ عنہ  کی اولاد میں سے نہیں ہے تو ان کے غریب مستحق لوگوں کو زکوۃ دینا جائز ہے ۔

    فتاوی شامی میں ہے:

"و سببه، أي سبب افتراضها ملك نصاب حولي ّ تام  فارغ عن دين له مطالب من جهة العباد، و فارغ عن حاجته الأصلية، نام و لو تقديرًا."

(کتاب الزکاۃ،ج:2،ص:259، 260،ط:سعید)

مشکوۃ شریف میں ہے:

"و عن عبد المطلب بن ربيعة قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: إن هذه الصدقات إنماهي أوساخ الناس وإنها  لا تحل لمحمد ولا لآل محمد."

(کتاب الزکاۃ، باب من تحل لہ الصدقۃ،ص:161،ط:قدیمی)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"و لايدفع الي بني هاشم وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداىة".

(کتاب الزکاۃ،الباب السابع فی المصرف،ج:1،ص:189،ط:رشیدیہ)

بدائع الصنائع میں ہے:

"و بنو هاشم الذين  تحرم عليهم الصدقات آل عباس و آل علي و آل جعفر ... الخ".

(کتاب الزکاۃ، ج:2۔،ص:162،ط:المکتبۃ الوحیدیۃ پشاور)

در مختار میں ہے

"ويشترط أن يكون الصرف (تمليكا )لاإباحة ... لايصرف  إلی بناء ... و لا إلى بني هاشم."

(کتاب الزکاۃ ،باب المصرف ،ج:3،ص:344، 350،ط:سعید)

فتح القدیر میں ہے:

"و لايجوز للشاهد أن يشهد لشئ  لم يعاينه الاالنسب فانه  يسعه  أن يشهد  بهذه الأشياء إذا أخبره بها من يثق به من رجلين عدلين".

(کتاب الشہادات، ج:6،ص:460،ط:رشیدیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101601

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں