بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا وبصوم غد نویت من شھر رمضان کے الفاظ کے ساتھ نیت کرنا بدعت ہے؟


سوال

جب ایک چیز حدیث سے ثابت نہیں تو کیوں مفتیان کرام اس کے جواز کا فتوی دیتے ہیں جیسے یہ دعا "وبصوم غد نویت من شہر رمضان "کیا یہ بدعت نہیں ہے؟

جواب

شریعت کی اصطلاح میں بدعت کہتے ہیں ": ” دین میں کسی کام کا زیادہ یا کم کرنا،  جس کی اصل کتاب وسنت سے نہ ہو، اور جو  صحابہؓ،  تابعین اور تبع تابعین کے دورکے بعد ہوا ہو ،اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے کرنے کی اجازت منقول نہ ہو، نہ قولا،  ًنہ فعلاً، نہ صراحتاً، نہ اشارۃً ، اور اس کو دین اور ثواب کا کام سمجھ کر کیا جائے“اور  جس چیز کی خوبی  دلیل ِشرعی  سے ثابت ہو تو  وہ بدعت نہیں ہے کیوں کہ بدعت وہ ہوتی  ہے کہ جس پر کوئی دلیل ِشرعی  دلالت نہ کررہی ہواور شریعت کاحکم سمجھ کر ثواب سمجھ کر ثواب  کی نیت سے کیاجارہاہو ، اور  اس  کے نہ کرنے والے کو برا سمجھا جائے۔

واضح رہے کہ  روزہ عبادت ہے اور عبادت صحیح ہونے کے لیے   نیت  شرط ہےنیت کے  بغیر روزہ درست نہیں ہوتا،اور حدیث شریف میں ہے "انماالاعمال بالنیات " اور قرآن مجید میں  ہے:

(وَمَآ أُمِرُوْا إِلَّا لِيَعْبُدُوْا اللّٰهَ مُخْلِصِينَ لَهُ ٱلدِّينَ حُنَفَآءَ)

ترجمہ :"حالانکہ ان لوگوں کو کتب سابقہ میں یہی حکم ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی اس طرح عبادت کریں کہ عبادت اس کے لئے خاص رکھیں ( ادیان باطلہ شرکیہ سے ) یک سو ہو کر ۔"(ازبیان القرآن)

البتہ   نیت دل سے ارادہ کرنے کانا م ہے زبان سے نیت کا اظہار  کرنا  ضروری نہیں بلکہ مستحب  ہے؛  تاکہ دل وزبان دونوں ایک ہو جائیں  اگر کسی نے روزے کی نیت محض دل سے  کی تو اس کاروزہ ہوجائے گا ،اور  الفاظ نیت کے لیے جو بھی استعمال  کر ے درست ہے ،کوئی مخصوص الفاظ احادیث سے ثابت نہیں ہیں ،اگر کوئی آدمی رات کو دل میں یہ ارادہ کرے کہ کل میرا روزہ ہے یازبان سے یہ کہہ دے  کہ میں کل روزہ رکھوں گا تو بھی درست ہے ،البتہ صورت مسئولہ میں ذکر کردہ الفاظ  نیت کی تعلیم دینے کے لیے فقہاء  سے منقول ہیں تاکہ معلوم ہو کہ روزہ کی نیت دل میں کیسے کریں "نويت أصوم غدا"یا اس کے علاوہ اپنی زبان کے دوسرے الفاظ سے کرےسب  درست ہیں ،نیز یہ روزہ کی نیت کے الفاظ ہیں،لہٰذا ان الفاظ کو بدعت کہنا  درست نہیں ہے  کیوں کہ جس طرح اور الفاظ سے نیت کرنا بدعت نہیں ہے تو اِن الفاظ سے بھی بدعت نہیں ہے  ،البتہ اِن ہی الفاظ کو ضروری سمجھنادرست نہیں ہے اور اگر سائل کے ذہن میں لوگوں کو روزہ کی نیت سکھانے کے لیے کوئی اور طریقہ ہے تو اس کو لکھ کر دارالافتاء سے دوبارہ رجوع کریں۔

مجلة الجامعة الإسلامية  میں ہے :

"وأما ما ثبت حسنه بدليل شرعي فليس من البدع الشرعية فيبقى العموم محفوظاً لا خصوص فيه إذ ‌البدعة ‌شرعا: ما لم يدل عليه دليل شرعي."

(مجلة الجامعة الإسلامية بالمدينة المنورة،العدد 65/66 البدع وآثارهاالسيئة ،ج :31 ،ص : 428  ،ط :موقع الجامعة على الإنترنت)

كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم میں ہے :

"وفي شرح النخبة وشرحه: ‌البدعة ‌شرعا هي اعتقاد ما أحدث على خلاف المعروف عن النبي صلى الله عليه وسلم لا بمعاندة، بل بنوع شبهة. وفي إشارة إلى أنه لا يكون له أصل في الشرع أيضا، بل مجرد إحداث بلا مناسبة شرعية أخذا من قوله صلى الله عليه وسلم «من أحدث في أمرنا هذا ما ليس منه فهو رد» «2» حيث قيده بقوله ما ليس منه. وإنما قيل لا بمعاندة لأن ما يكون بمعاندة فهو كفر."

(كشاف اصطلاحات الفنون والعلوم  ،حرف الباء ،ج :1 ،ص :313 ،ط : مكتبة لبنان ناشرون - بيروت)

 فتاویٰ  ہندیہ میں ہے  :

"(أما شروطه) فثلاثة أنواع. (شرط) وجوبه الإسلام والعقل والبلوغ. (وشرط) وجوب الأداء الصحة والإقامة. (وشرط) صحة الأداء النية والطهارة عن الحيض والنفاس كذا في الكافي والنهاية والنية معرفته بقلبه أن يصوم كذا في الخلاصة، ومحيط السرخسي. والسنة أن يتلفظ بها كذا في النهر الفائق. ثم عندنا لا بد من النية لكل يوم في رمضان كذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الصوم ،ج :1 ،ص :215 ،ط :دارالكتب العلمية)

فتاویٰ شامی میں ہے :

"والشرط فيها: أن يعلم بقلبه أي صوم يصومه. قال الحدادي: والسنة أن يتلفظ بها۔۔۔(قوله: والسنة) أي سنة المشايخ لا النبي صلى الله عليه وسلم لعدم ورود النطق بها عنه ح (قوله: أن يتلفظ بها) فيقول: نويت أصوم غدا أو هذا اليوم إن نوى نهارا لله عز وجل من فرض رمضان سراج."

(كتاب الصوم ،ج :2 ،ص :380 ،ط :سعيد كراتشي)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144509100210

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں