بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زندگی میں اپنے لیے قبر کی جگہ مخصوص کرنا حدیث سے ثابت ہے؟


سوال

کیا قبر کے لیے جگہ مخصوص کر دینا کیا جائز ہے اور اگر ہے تو کیا حدیث پاک سے ثابت ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو زمین قبرستان کے لیے وقف ہو اس میں اپنے لیے قبر کی جگہ مخصوص کرنے کی اجازت نہیں ہے، کیوں کہ اس میں عام لوگوں کا حق متعلق ہے، البتہ اپنی مملوکہ زمین میں اپنے لیے قبر کی جگہ مخصوص کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،بلکہ باعث اجر ہے تاہم ایسا کرنا کسی حدیث سے تو ثابت نہیں ہے لیکن حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی طرف منسوب ہے کہ انہوں سے اپنی وفات سے قبل دس یا بیس دینار میں   اپنے لیے قبر  کی جگہ خریدی تھی۔

عبد اللہ بن عبد الحکم المالکی (متوفیٰ 214ہجری) اپنی کتاب سيرت عمر بن عبد العزيز میں لکھتے ہیں:

"وكان عمر بن عبد العزيز قد اشترى موضع قبره بعشرين دينارا وقيل بعشرة دنانير".

(‌‌شراء عمر موضع قبره، ص: 99، ط: عالم الكتب)

(كذا في سير أعلام النبلاء ، الجزء الخامس، عمر بن عبد العزيز بن مروان الأموي، 5/ 144، ط: مؤسسة الرسالة)

حافظ ابن الجوزی رحمہ اللہ (متوفیٰ 597 ہجری)  اپنی کتاب مثیر الغرام الساكن  میں تحریر فرماتے ہیں:

"وكان موسى بن أبي عائشة قد احتفر ‌قبرا ‌لنفسه، فكان يطلع فيه كل يوم إطلاعة".

(‌‌باب الاتعاظ بالقبور، ص501،ط: دار الحديث، القاهرة)

الدر المختار میں ہے:

"ويحفر قبرا لنفسه، وقيل يكره؛ والذي ينبغي أن لا يكره تهيئة نحو الكفن بخلاف القبر".

وفي الرد:

"(قوله: ويحفر قبرا لنفسه) في بعض النسخ: وبحفر قبر لنفسه، على أن لفظة حفر مصدر مجرور بالباء مضاف إلى قبر: أي ولا بأس به. وفي التتارخانية: لا بأس به، ويؤجر عليه، هكذا عمل عمر بن عبد العزيز والربيع بن خيثم وغيرهما. اهـ. (قوله والذي ينبغي إلخ) كذا قوله في شرح المنية، وقال لأن الحاجة إليه متحققة غالبا، بخلاف القبر {وما تدري نفس بأي أرض تموت} [لقمان: 34]".

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 2/ 244، ط: سعيد)

وفي حاشية الطحطاوي على الدر المختار:

"قوله ويحفر قبرا لنفسه لأنه من الإستعداد للقاء الله تعالى قوله وقيل يكره لقوله تعالى لقوله تعالى وما تدري نفس بأي أرض تموت قلت حفره لا ينافي الآية لنفعه في الجملة ولو لغيره".

(كتاب الصلاة، باب صلاة الجنازة، 127/3، ط: دار الكتب العملية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504101648

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں