بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زندگی میں اپنی نمازوں کا فدیہ دیا جا سکتا ہے؟


سوال

کیا قضا   ءنمازوں کا فدیہ دے  سکتے ہیں؟ اور جیسے آدھی پڑھ لیں اور کچھ کا فدیہ دے دیا، ایسا کرسکتے ہیں؟

جواب

قضاءنمازوں  کا فدیہ زندگی میں ادا نہیں  کیا جاسکتااس لئے کہ زندگی میں قضاء کرنے کی طاقت ہوتی ہے اور جب تک قضاء کرنے کی طاقت ہو فدیہ کی گنجائش نہیں، لہذا ایسا کرنا جائز نہیں کہ آدھی نمازیں پڑھ لیں اور باقی کا فدیہ دیدیا،  البتہ  انتقال کے بعد فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے۔ اس لئے موت سے پہلے پہلے کوشش کریں کہ ان فوت شدہ نمازوں کی قضا ہوجائے، اور اگر کچھ رہ   جائے تو موت کے وقت  ان کے متعلق وصیت کر جائیں  کہ میری اتنے نمازیں ذمہ پر باقی  ہیں ان کا فدیہ دیا جائے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ولو فدى عن صلاته في مرضه لا يصح)، في التتارخانية عن التتمة: سئل الحسن بن علي عن الفدية عن الصلاة في مرضالموت هل تجوز؟ فقال لا.  وسئل أبو يوسف عن الشيخ الفاني:  هل تجب عليه الفدية عن الصلوات كما تجب عليه عن الصوم وهو حي؟ فقال لا. اهـ. وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم. اهـ.

أقول: ووجه ذلك أن النص إنما ورد في الشيخ الفاني أنه يفطر ويفدي في حياته، حتى إن المريض أو المسافر إذا أفطر يلزمه القضاء إذا أدرك أياما أخر، وإلا فلا شيء عليه، فإن أدرك ولم يصم يلزمه الوصية بالفدية عما قدر، هذا ما قالوه، ومقتضاه: أن غير الشيخ الفاني ليس له أن يفدي عن صومه في حياته لعدم النص، ومثله الصلاة. ولعل وجهه أنه مطالب بالقضاء إذا قدر، ولا فدية عليه إلا بتحقيق العجز عنه بالموت فيوصي بها، بخلاف الشيخ الفاني؛ فإنه تحقق عجزه قبل الموت عن أداء الصوم وقضائه فيفدي في حياته، ولا يتحقق عجزه عن الصلاة؛ لأنه يصلي بما قدر ولو موميا برأسه".

(حاشية ابن عابدين على الدر المختار: كتاب الصلاة، باب قضاء الفوائت (2/ 74)، ط. سعيد)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403101172

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں