آج سے بیس سال قبل ہماری والدہ نے دو بہنوں کو تقریباً پانچ پانچ لاکھ روپے ان کے گھر کی تعمیر میں لگائے اور کہتی تھیں کہ غریب ہیں، واپس نہ لوں گی، اب والدہ کے انتقال کے بعد وراثت کے مکان میں سب بہن بھائیوں کی طرح ہم ان کو برابر کا حصہ دے رہے ہیں، جب کہ کچھ بہن بھائی کہتے ہیں کہ بیس سال قبل پانچ پانچ لاکھ لے چکے ہیں، ان کے اپنے گھر موجود ہیں، ہمیں حصہ کم ملے گا، ہم گھر کیسے بنائیں گے؟ اب کیا کیا جائے؟ ان کو برابر کا حصہ دیا جائے یا نہیں؟
صورتِ مسئولہ میں والدہ نے اپنی حیات میں جو پانچ پانچ لاکھ روپے مکان کی تعمیر کے لیے اپنی دو بیٹیوں کو دیے اور یہ صراحت کی کہ "غریب ہیں، واپس نہ لوں گی"، اِس کی حیثیت ہدیہ کی ہوئی اور جب والدین زندگی میں اپنی اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز بطورِ ہدیہ دیں تو اِس کی وجہ سے ہدیہ وُصول کرنے والوں کا حصہ میراث میں کم نہیں ہوتا، لہذا والدہ کے انتقال کی صورت میں اُن بہنوں کو اُن کا پورا حصہ دیا جائے گا، زندگی میں ہدیہ وصول کرنے کی وجہ سے میراث میں اُن کا حصہ کم نہیں ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"و في الخانیة: لا بأس بتفضیل بعض الأولاد في المحبة؛ لأنها عمل القلب وکذا في العطایا إن لم یقصد به الإضرار، و إن قصده فسوی بینهم یعطی البنت کالابن عند الثاني، و علیه الفتوی.ولو وهب في صحته كل المال للولد جاز و أثم".
(کتاب الھبۃ، 5 /696 ط: سعید)
وفیہ ایضاً:
"واعلم أن الناطفي ذكر عن بعض أشياخه أن المريض إذا عين لواحد من الورثة شيئاً كالدار على أن لايكون له في سائر التركة حق يجوز، وقيل: هذا إذا رضي ذلك الوارث به بعد موته فحينئذ يكون تعيين الميت كتعيين باقي الورثة معه، كما في الجواهر اهـ. قلت: وحكى القولين في جامع الفصولين فقال: قيل جاز، وبه أفتى بعضهم، وقيل: لا".
(کتاب الوصایا، 6 / 655، ط: سعيد)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144305100251
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن