بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا حمل ضائع کروانا قتل شمار ہوگا؟


سوال

 اگرکوئی شخص منگنی کے بعد اپنی منگیتر سے جماع کرے اور اس سے حمل ٹھہر جائے توکیا  اس صورت میں  منگیتر کا حمل ساقط کروادینے  کی وجہ سے وہ شخص   قاتل شمار ہوگا یا نہیں ؟

جواب

 اگر بچے کے اعضاء بن چکے ہوں  اوراس میں جان پڑ گئی ہو،جس کی مدت 120 دن (یعنی  چار ماہ)ہیں،تو  ایسی صورت میں   حمل کو ساقط کرنایا کرواناقتلِ نفس ہونے کی وجہ سےناجائز، حرام  اور انتہائی سخت ظلم  ہے،اور ایسا عمل کرنے والا شخص قاتل شمار ہوگااوراگر 120دن گزرنے سے پہلےحمل ساقط کروایا ہوتب بھی بلا   عذر یہ عمل مکروہ اور  ناپسندیدہ ہے؛اس لیےدونوں صورتوں میں توبہ و استغفار ضروری ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي الذخيرة: لو أرادت إلقاء الماء بعد ‌وصوله ‌إلى ‌الرحم قالوا إن مضت مدة ينفخ فيه الروح لا يباح لها وقبله اختلف المشايخ فيه والنفخ مقدر بمائة وعشرين يوما بالحديث اهـ قال في الخانية: ولا أقول به لضمان المحرم بيض الصيد لأنه أصل الصيد، فلا أقل من أن يلحقها إثم وهذا لو بلا عذر."

(كتاب الحظر والإباحة،‌‌ باب الاستبراء وغيره، ج:6، ص:374، ط:سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"العلاج لإسقاط الولد إذا استبان خلقه کالشعر والظفر ونحوهما لایجوز، وإن کان غیر مستبین الخلق یجوز… وفي اليتيمة سألت علي بن أحمد عن إسقاط الولد قبل أن يصور فقال أما في الحرة فلا يجوز قولا واحدا وأما في الأمة فقد اختلفوا فيه والصحيح هو المنع كذا في التتارخانية.... امرأة مرضعة ظهربها حبل وانقطع لبنها، وتخاف علی ولدها الهلاک، ولیس لأبي هذا الولد سعة حتی یستأجر الظئر یباح لها أن تعالج في استنزال الدم مادام نطفة أو مضغة أو علقة لم یخلق له عضو وخلقه لایستبین إلا بعد مائة وعشرین یوماً أربعون نطفةً وأربعون علقةً وأربعون مضغةً، کذا في خزانة المفتیین، وهکذا في فتاوی قاضي خان."

(کتاب الکراهیة، الباب الثامن عشر: في التداوي والمعالجات وفیه العزل وإسقاط الولد، ج:5، ص:356، ط:رشیدیة)

الموسوعۃ الفقہیہ میں ہے:

"وذهب الحنفیة إلی إباحة إسقاط العلقة حیث أنهم یقولون بإباحة إسقاط الحمل ما لم یتخلق منه شيء ولم یتم التخلق إلا بعد مائة وعشرین یوماً، قال ابن عابدین: وإطلاقهم یفید عدم توقف جواز إسقاطها قبل المدة المذکورة علی إذن الزوج، وکان الفقیه علي بن موسی الحنفي یقول: إنه یکره فإن الماء بعد ما وقع في الرحم مآله الحیاة، فیکون له حکم الحیاة کما في بیضة صید الحرم، قال ابن وهبان: فإباحة الإسقاط محمولة علی حالة العذر أو أنها لا تأثم إثم القتل."

(علقة، ‌‌الأحكام المتعلقة بالعلقة، ج:30، ص:285، ط: وزاره الأوقاف والشؤون الإسلامية - كويت)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144507100074

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں