بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زنا قرض ہے؟


سوال

کیا زنا ایک قرض ہے ؟ اس بارے میں رہنمائی فرمادیں!

جواب

زنا کا قرض ہونا شریعت میں کہیں منقول نہیں، نہ  کسی روایت میں  مذکور  ہے، نبی  کریم  ﷺ   سے   جب  ایک شخص نے زنا کی اجازت مانگی تو  آپ ﷺ نے اسے حکمت کے ساتھ منع فرمایا اور اسے اس کی قباحت کا احساس دلاتے ہوئے اس بات کی طرف متوجہ کیا کہ اگر اس کی گھر کی عورتوں کے ساتھ زنا کیا جائے تو اسے کیسا محسوس ہوگا؟ لہذا جس سے بھی زنا کیا جائے گا، وہ عورت بھی کسی کی بیٹی ہے، لہذا اس سے اجتناب کیا جائے۔

غالباً اسی مضمون کا احساس دلاتے ہوئے بعض اشعار  میں زنا سے روکنے کی نصیحت اس انداز پر کی گئی ہے کہ شاعر نے زنا کو قرض قرار دیا ہے؛ تاکہ زنا کی طرف متوجہ ہونے والا اپنی عورتوں کی پاک دامنی کا خیال کرتے ہوئے زنا کا ارادہ ترک کردے۔ 

اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ زنا کا قرض ہونا حدیث میں مذکور نہیں ہے اور  نہ ہی یہ لازم ہے کہ ایک شخص کے گناہ میں مبتلا ہونے کی نحوست سے اس کے گھر کی عورتیں بھی اس میں مبتلا ہوں۔

مسند أحمد ط الرسالة (36 / 545):

 "عن أبي أمامة قال: إن فتى شابا أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله، ائذن لي بالزنا، فأقبل القوم عليه فزجروه وقالوا: مه. مه. فقال: " ادنه، فدنا منه قريبا ". قال: فجلس قال: " أتحبه لأمك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لأمهاتهم ". قال: " أفتحبه لابنتك؟ " قال: لا. والله يا رسول الله جعلني الله فداءك قال: " ولا الناس يحبونه لبناتهم ". قال: " أفتحبه لأختك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لأخواتهم ". قال: " أفتحبه لعمتك؟ " قال: لا. والله جعلني الله فداءك. قال: " ولا الناس يحبونه لعماتهم ". قال: " أفتحبه لخالتك؟ " قال: لا، والله جعلني الله فداءك. قال: "و لا الناس يحبونه لخالاتهم". قال: فوضع يده عليه وقال: " اللهم اغفر ذنبه وطهر قلبه، وحصن فرجه " قال فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء."

ترجمہ: حضرت  ابو  امامہ  رضی  اللہ  عنہ  سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا: یا رسول اللہ ! صلی اللہ علیہ وسلم مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجیے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا:  میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لوگ بھی اسے اپنی ماں کے  لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے  لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں،  نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے  لیے پسند نہیں کرتے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعا  کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ  کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔ 

كشف الخفاء ت هنداوي (2 / 71):

"عفوا تعف نساؤكم، وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم.

رواه الطبراني عن جابر والديلمي عن علي مرفوعًا: "لا تزنوا فتذهب لذة نسائكم، وعفوا تعف نساؤكم، إن بني فلان زنوا فزنت نساؤهم". وفي الباب عن غيرهما.

وفي البدر المنير للشعراني بلفظ: "عفوا عن نساء الناس تعف نساؤكم وبروا آباءكم تبركم أبناؤكم"، رواه الطبراني وغيره مرفوعًا. وللعلامة المقري:

عفوا تعف نساؤكم في المحرم ... وتجنبوا ما لا يليق بمسلم

يا هاتكًا حرم الرجال وتابعًا ... طرق الفساد تعيش غير مكرم

من يزن في قوم بألفي درهم ... في أهله يزنى بربع الدرهم

إن الزنا دين إذا أقرضته ... كان الوفا من أهل بيتك فاعلم"۔

الموضوعات لابن الجوزي (3 / 85):

"عن جابر قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " بروا آباؤكم تبركم أبناؤكم، وعفوا تعف نساؤكم، ومن تنصل إليه فلم يقبل فلن يرد على الحوض ".هذا حديث لايصح."

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212201747

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں