بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا ضرورت کے وقت مذہبِ غیر پر عمل کیا جاسکتا ہے؟


سوال

ضرورت کے وقت دوسرے مسلک پر عمل کر سکتے هیں یا نهیں؟ اور اگر کوئی شخص کسی مسٔلے میں پاپندی سے دوسرے مسلک پر عمل کرتا هو تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

ائمۂ اربعہ میں سے کسی ایک امام کا مقلد ہوتے ہوئے کسی خاص مسئلے میں کسی اور امام کے مذہب پر عمل کرنا چند شرائط کے ساتھ جائز ہے، چنانچہ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ  ’’حیلۂ ناجزہ‘‘ میں لکھتے ہیں: 

’’مذہبِ غیر پر عمل کرنا ضرورتِ شدیدہ کی بنا پر ہو، اتباع ہویٰ کے لیے نہ ہو، (عمل واحد میں)تلفیق خارق اجماع نہ ہو۔‘‘

اسی طرح محدث العصرحضرت مولانا سید محمد یوسف بنوری رحمہ اللہ  اپنے ایک مضمون میں کسی دوسرے امام کے مذہب پر فتوی دینے اور اس پر عمل کرنے کی شرائط ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’ البتہ تلفیق سے احتراز کرناضروری ہے اور تتبع رخص کو مقصد نہ بنایا جائے۔‘‘

(فتاوی بینات، مقدمہ، عنوان:جدید فقہی مسائل اور چند رہنما اصول، 1/ 28، ط: مکتبۂ بینات)

اور حضرت مولانا مفتی رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ نے فتاوی رشیدیہ میں اسی موضوع کے ایک سوال کا جواب یہ دیا ہے:

’’مذہب سب حق ہیں، مذہب شافعی پر عندالضرورت عمل کرنا کچھ اندیشہ نہیں مگر نفسانیت اور لذت نفسانی سے نہ ہو، عذر یا حجت شرعیہ سے ہووےکچھ حرج نہیں۔‘‘

( ص: 93، عنوان:عند الضرورت مذہب شافعی پر عمل کرنا) 

حاصل یہ ہے کہ جب ضرورتِ شدیدہ ہو (جس کے لیے شرعاً اضطرار کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے)اور اپنے مذہب پر عمل کرنے میں حرج و مشقت لازم آتی ہو تو ایسی صورت میں کسی دوسرے امام کے مذہب پر عمل کیا جاسکتا ہے بشرط یہ کہ دوسرے مذہب پر عمل کرنا خواہش نفس اور رخصت کو تلاش کرنے کی بنا پر نہ ہو اور نہ ہی تلفیق سے کام لیا جاتا ہو، لیکن ان شرائط کے متحقق ہونے کا فیصلہ کرنا ہر ایک کا کام نہیں ہے،اس لیے خود کوئی فیصلہ کرنے کی بجائے ماہر اور متبحر مفتیان کرام کے سامنے اپنا مسئلہ اور معروضی حالات پیش کرکےان سے فیصلہ کرایا جائے۔

شرح عقود رسم المفتی میں ہے:

"وبه علم أن المضطر له العمل بذلك لنفسه كما قلنا وأن المفتي له الإفتاء به للمضطر. فما مر من أنه ليس له العمل بالضعيف ولا الإفتاء به محمول على غير موضع الضرورة، كما علمته من مجموع ما قررناه. والله تعالى أعلم... قال في خزانة الروايات: العالم الذي يعرف معنى النصوص والأخبار، وهو من أهل الدراية يجوز له أن يعمل عليها وإن كان مخالفا لمذهبه.انتهى"

(ص: 89، ط: البشری)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404101188

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں