بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زمین بھی نصابِ قربانی میں شامل ہے؟ / ہر صاحبِ نصاب پر الگ قربانی واجب ہے


سوال

میں اپنے لیے عید کی قربانی کرتا ہوں، میں صاحبِ نصاب ہوں، اور میری والدہ حیات ہے اور اس کی ملکیت میں ایک کنال زمین ہے جس کی مالیت دو لاکھ روپے ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ بیٹوں پر ماں کی طرف سے قربانی کرنا لازم ہے یا نہیں؟ بیٹے اپنی قربانی کرتے ہیں ماں کی قربانی نہیں کرتے، شرعاً کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  جس عاقل، بالغ، مقیم، مسلمان  مرد یا عورت کی ملکیت میں قربانی کے ایام میں، ذمہ میں  واجب الادا اخراجات منہا کرنے کے بعد ضرورت سے زائد اتنا مال یا سامان  موجود ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر یا اس سے زائد ہو (خواہ ضرورت سے زائد مال نقدی ہو یا سونا چاندی ہو یا کسی اور شکل میں ہو، اسی طرح مالِ تجارت نہ بھی ہو) تو ایسے مرد وعورت پر قربانی واجب ہے۔

اب آپ کی والدہ  کی ملکیت میں موجود ایک کنال زمین اگر ان کی ضرورت سے زائد ہو، یعنی رہائش، مقامِ کاروبار اور کرایہ یا زراعت کے علاوہ ہو تو ایسی زمین اور جائیداد بھی قربانی کے نصاب میں شامل ہو گی۔اور صاحب ِنصاب پر قربانی واجب ہے، پس اگر ایک گھر میں متعدد افراد صاحب ِنصاب ہوں تو ہر ایک  پرالگ الگ  قربانی واجب ہوگی۔ 

لہذا مندرجہ بالا تفصیل کے مطابق قربانی کے ایام میں اگر آپ کی والدہ صاحبِ نصاب ہوں تو ان پر قربانی واجب ہوگی اور اس واجب کی ادائیگی میں اگر اولاد اپنی والدہ کے ساتھ تعاون کرےتو  یہ تعاون ان کے لیے اجر کا باعث ہوگا لیکن اگر اولاد والدہ کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کرتی تو بہرحال والدہ پر اپنی قربانی واجب ہوگی اور صاحب ِنصاب اولاد پر اپنی قربانی واجب ہوگی۔

فتاوى هنديہ میں ہے:

"وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلاً عن حوائجه الأصلية، كذا في الاختيار شرح المختار، ولايعتبر فيه وصف النماء، ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب، هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب الزكاة، الباب الثامن في صدقة الفطر، 1/ 191، ط: رشيدية)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے: 

"ولا يجب على الرجل أن يضحي عن عبده ولا عن ولده الكبير ..... وجه ظاهر الرواية أن الأصل أن لا يجب على الإنسان شيء على غيره خصوصا في القربات؛ لقول الله تعالى {وأن ليس للإنسان إلا ما سعى} [النجم: 39] وقوله جل شأنه {لها ما كسبت} [البقرة: 286] ولهذا لم تجب عليه عن عبده وعن ولده الكبير، إلا أن صدقة الفطر خصت عن النصوص فبقيت الأضحية على عمومها ولأن سبب الوجوب هناك رأس يمونه ويلي عليه وقد وجد في الولد الصغير وليس السبب الرأس ههنا؛ ألا ترى أنه يجب بدونه وكذا لا يجب بسبب العبد."

(كتاب التضحية، ‌‌فصل: وأما شرائط الوجوب، 5/ 64، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144401101216

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں