بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا زکات کی ادائیگی میں قرآن کریم میں بیان کردہ مصارف کی ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے؟


سوال

کیا زکوۃ میں ترتیب واجب ہے کہ جس ترتیب سے قرآن مصرف بیان کیے ہے؟

جواب

زکات کی ادائیگی کے قرآن کریم نے جو آٹھ  مصارف بیان کیے ہیں، ان میں سے مؤلفۃ القلوب  منسوخ ہوچکا ہے اور اس کے منسوخ ہونے پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع بھی منعقد ہوچکا ہے، اس کے علاوہ دیگر مصارف میں سے کسی بھی ایک مصرف میں  کسی بھی ایک فرد کو زکات  دے دی جائے، تو زکات ادا ہوجائے گی، نہ تمام مصارف میں زکات دینا ضروری ہے اور نہ  ہی ترتیب ضروری ہے۔

تاہم یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ زکات کے مصارف میں عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں جو اسلامی حکومت کی طرف سے عوام الناس  سے ان کے اموال ظاہرہ (جانوروں کی زکاۃ)کی زکات وصول کرنے پر مامور ہوں،  لہٰذا اگر کسی جگہ  اس طرح کا نظام موجود ہو اور حکومت کی طرف سے عاملین زکات بھی مقرر ہوں، تو وہاں عاملین کو زکات دی جاسکتی ہے، باقی آج کل دینی مدارس  کے سفراء، یا فلاحی اداروں کی طرف سے زکات وصول کرنے والے افراد عاملین میں شامل نہیں۔ 

فتح القدیر میں ہے:

"فللمالك أن يدفع إلى كل واحد منهم  وله أن يقتصر على صنف واحد) وقال الشافعي - رحمه الله - لا يجوز إلا أن يصرف إلى ثلاثة من كل صنف، لأن الإضافة بحرف اللام للاستحقاق.."

(قوله وله أن يقتصر على صنف واحد) وكذا له أن يقتصر على شخص واحد (قوله بحرف اللام للاستحقاق) وذكر كل صنف بلفظ الجمع فوجب أن يصرف إلى ثلاثة من كل صنف وإن كان محلى باللام؛ لأن الجنس هنا غير ممكن فيه الاستغراق فتبقى الجمعية على حالها.

قلنا: حقيقة اللام الاختصاص الذي هو المعنى الكلي الثابت في ضمن الخصوصيات من الملك والاستحقاق وقد يكون مجردا، فحاصل التركيب إضافة الصدقات العام الشامل لكل صدقة متصدق إلى الأصناف العام كل منها الشامل لكل فرد فرد بمعنى أنهم أجمعين أخص بها كلها، وهذا لا يقتضي لزوم كون كل صدقة واحدة تنقسم على أفراد كل صنف، غير أنه استحال ذلك فلزم أقل الجمع منه، بل إن الصدقات كلها للجميع أعم من كون كل صدقة. صدقة لكل فرد فرد لو أمكن، أو كل صدقة جزئية لطائفة أو لواحد. وأما على اعتبار أن الجمع إذا قوبل بالجمع أفاد من حيث الاستعمال العربي انقسام الآحاد على الآحاد نحو {جعلوا أصابعهم في آذانهم} [نوح: ٧] وركب القوم دوابهم، فالإشكال أبعد حينئذ إذ يفيد أن كل صدقة لواحد، وعلى هذا الوجه لا حاجة إلى نفي أنها للاستحقاق بل مع كونها له يجيء هذا الوجه فلا يفيد الجمع من كل صنف، إلا أنهم صرحوا بأن المستحق هو الله سبحانه غير أنه أمر بصرف استحقاقه إليهم على إثبات الخيار للمالك في تعيين من يصرفه إليه فلا تثبت حقيقة الاستحقاق لواحد إلا بالصرف إليه إذ قبله لا تعين له ولا استحقاق إلا لمعين، وجبر الإمام لقوم علم أنهم لا يؤدون الزكاة على إعطاء الفقراء ليس إلا للخروج عن حق الله تعالى لا لحقهم، ثم رأينا المروي عن الصحابة نحو ما ذهبنا إليه، رواه البيهقي عن ابن عباس، وابن أبي شيبة عن عمر."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:265، ط:دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"وقد سقط منها المؤلفة قلوبهم لأن الله تعالى أعز الإسلام وأغنى عنهم) وعلى ذلك انعقد الإجماع.

(قوله على ذلك انعقد الإجماع) أي إجماع الصحابة في خلافة أبي بكر، فإن عمر ردهم، وقال ما ذكرنا لعيينة وقيل جاء عيينة والأقرع يطلبان أرضا إلى أبي بكر فكتب له الخط، فمزقه عمر وقال: هذا شيء كان رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يعطيكموه ليتألفكم على الإسلام، والآن فقد أعز الله الإسلام وأغني عنكم، فإن ثبتم على الإسلام وإلا فبيننا وبينكم السيف، فرجعوا إلى أبي بكر فقالوا: الخليفة أنت أم عمر؟ فقال: هو إن شاء، ووافقه فلم ينكر أحد من الصحابة."

(كتاب الزكاة، ج:2، ص:259، 260، ط:دار الفكر)

معارف القرآن میں مفتی شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"تیسرا مصرف "العاملین عليها"، یہاں عاملین سے مراد وہ لوگ ہیں، جو اسلامی حکومت کی طرف سے صدقات زکوٰۃ و عشر وغیرہ۔۔۔ لوگوں سے وصول کر کے بیت المال میں جمع کرنے کی خدمت پر مامور ہوتے ہیں، یہ لوگ چوں کہ اپنے تمام اوقات اس خدمت میں خرچ کرتے ہیں، اس لیے ان کی ضروریات کی ذمہ داری اسلامی حکومت پر عائد ہے، قرآن کریم کی اس آیت نے مصارفِ زکوٰۃ میں ان کا حصہ رکھ کر یہ متعین کردیا کہ ان کا حق الخدمت اسی مدِ زکوٰۃ سے دیا جائے گا۔"

(سورۃ التوبہ، ج:4، ص:397، ط:مکتبہ معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408101801

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں