بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا یہ کہنا درست ہے کہ نماز کا چھوڑنا اتنا بڑا گناہ نہیں اور دعوت کا چھوڑنا اس سے بڑا ہے؟


سوال

"نماز کا چھوڑنا اتنا بڑا گناہ نہیں جتنا بڑا گناہ دعوت اللہ کا چھوڑنا ہے"،یہ جملہ کہنا کہاں تک درست ہے؟  اس کی کوئی واضح دلیل ہے ،ہمارے اکثر دعوت و تبلیغ میں لگے ساتھی اس جملہ کو استعمال کرتے ہیں، برائے مہربانی اس کی مستند حوالہ کے   ساتھ  وضاحت  فرمائیں!

جواب

واضح رہے کہ پانچ وقت کی نماز  ہر مسلمان پر فرض عین ہے،جب کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر   یا دعوت الی اللہ فرض کفایہ ہے جو مختلف شکلوں میں امت میں موجود ہے،اس لیے مذکورہ جملہ نماز کا چھوڑنا اتنا بڑا گناہ نہیں جتنا دعوت الی اللہ کو چھوڑنا ہے شرعًا صحیح نہیں  ہے،اور حقیقتًا  دعوت کی محنت کا مقصود بھی یہی ہے کہ لوگ نمازی بن جائیں، تو  یہ کیسے درست ہو سکتا ہے کہ نماز جو اصل مقصود ہے اسے چھوڑنا کم گنا ہ ہو اور دعوت کا چھوڑنا بڑا گناہ ہو۔

تفسیر مظہری  میں ہے:

﴿وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ أُمَّةٌ يَدْعُونَ إِلَى الْخَيْرِ وَيَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴾     [آل عمران: 104] 

"وَلْتَكُنْ مِنْكُمْ من للتبعيض لان الأمر بالمعروف والنهى عن المنكر من فروض الكفاية ولانه لا يصلح له كل أحد حيث يشترط له شروط من العلم والتمكن على الاحتساب وطلب من الجميع خاطب الجميع وطلب فعل البعض ليدل على انه واجب على الكل حتى لو ترك الكل أثموا جميعا ولكن يسقط بفعل بعضهم وهذا شأن فروض الكفاية."

(سورة آل عمران: 104، ج2ق1، ص113/114، مكتبة الرشدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409100376

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں