بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ عجوہ کھجور صبح نہار منہ کھانا زہر اور جادو کے نقصان سے مانع ہے؟ اور سائنس کی بنیاد پر کسی حدیث کو حدیث صحیح یا موضوع کہنے کا حکم؟


سوال

سوال یہ ہے کہ اگر عجوہ کھجور کھانے سے واقعی زہر اور جادو کا اثر زائل ہوجاتا ہے تو کیا اس بات کی مسلم یا غیر مسلم سائنسدانوں نے تحقیق کی ؟ اگر کی تو کیا اس بات کی تصدیق ہوئی یا نہیں ہوئی ؟ ہم مسلمانوں کے نزدیک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمائی ہوئی ایک ایک بات درست ہے ۔ اور جو درست نہیں ہے وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک ہی نہیں ہے ۔ بلکہ من گھڑت ہے موضوع ہے ۔میرے سوال کا جواب ضرور عنایت فرمائیں کتاب کے حوالے اور سند کے ساتھ ۔ 


جواب

 احادیث مبارکہ میں عجوہ سے متعلق یہ خصوصیت کہ : جو  آدمی صبح نہار منہ سات عدد کھجوریں  کھائے گا تو اس دن کوئی زہر اور جادو  اس آدمی کو  نقصان نہیں پہنچاسکے گا۔یہ صحیحین کی حدیث ہے،اس حدیث کی صحیح ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں۔اس کی تشریح میں محدثین فرماتے ہیں کہ:  اس خاص تعداد اور  طریقہ   پر  عجوہ کے استعمال سے یہ فائدہ حاصل ہونا  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کی برکت ہے،نفسِ   کھجور میں کوئی خاصیت نہیں، اس لئے اس خاصیت وفضیلت کی وجہ   قیاس(عقل) کے ذریعے نہیں جانی جاسکتی ہے، ہمیں اس پر ایمان رکھنا ضروری ہے اور بعض شراح فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ عجوہ کھجور میں   اس طرح کی کوئی خاصیت ہو، جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی جانتے ہوں، بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ آپ علیہ الصلاة والسلام کے زمانے کے ساتھ خاص تھا،  کوئی   بھی وجہ متعین طور پر نہیں کہی جاسکتی ہے۔ بہرحال! جو بھی وجہ ہو،   ہمیں سمجھ میں آئے یا نہیں ، لیکن  اس حدیث   پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔

یاد رہے کہ سائنس کي بنياد احادیث كو رد کرنا اور ان پر موضوع ہونے کا حکم   لگانا جائز نہیں، یہ کسی مسلمان کی شان کے مناسب نہیں،  سائنس کی باتیں تو روز کے روز بدلتی رہتی ہے، اس پر   اكبر  الٰہ آبادی کاشعر ہے:

صدیوں فلاسفی(سائنس دان) کی چناں اور چنیں رہی                                                      لیکن خدا کی بات جہاں تھی وہیں رہی

تو کیا پھر قرآن وحدیث میں بھی تبدیل کرنی پڑے گی۔یاد رہے کہ عقل کی جہاں انتہا  ہوتی ہے وہاں سے وحی کی ابتدا ہوتی ہے۔ جیسے حواس خمسہ ظاہرہ کے ذریعے جن چیزوں  کا ادراک ہوتا ہے، عقل کے ذریعے ان کا  ادراک نہیں ہوسکتی؛ کیوں کہ ہر چیز کا اپنا دائرہ ہے، اس طرح  عقل کا بھی ایک دائرہ ہے، اس سے آگے پھر وحی کی حدود شروع ہوجاتے ہیں، ضروری نہیں کہ   عقل کے ذریعے وحی کی ہر بات کا ادراک ہو،  اس  لیے ہر چیز پر عقل کو فیصل وحاکم بنانا غلط ہے۔

عمدة القاری میں ہے:

"وقال الخطابي: كونها عوذة من السحر والسم إنما هو من طريق التبرك لدعوة سلفت من النبي صلى الله عليه وسلم فيها، لا لأن من طبع التمر ذلك.وقال النووي: تخصيص من عجوة المدينة وعدد السبع من الأمور التي علمها الشارع ولا نعلم نحن حكمتها فيجب الإيمان بها وهو كأعداد الصلوات ونصب الزكاة، وقال المظهر: يجوز أن يكون في ذلك النوع منه هذه الخاصية.......وقال الطيبي في قوله صلى الله عليه وسلم: من عجوة المدينة تخصيص المدينة، أما لما فيها من البركة التي حصلت فيها بدعائه أو لأن تمرها أوفق لمزاجه من أجل قعوده بها."

(عمدة القاري: «كتاب الأطعمة»، «باب العجوة» (21/ 71)،ط.دار إحياء التراث العربي، بيروت)

شرح السنة للبغوی میں ہے:

"من تصبح بسبع تمرات عجوة، لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر» هذا حديث متفق على صحته، أخرجه مسلم، عن أبي بكر بن أبي شيبة، عن أبي أسامة، قوله: «من تصبح»، أي: أكل صباحا قبل أن يطعم شيئا، وكونها نافعة من السم والسحر، قيل: إنما هو من طريق التبرك بدعوة سبقت من النبي صلى الله عليه وسلم."

(شرح السنة للبغوي: باب ماجاء في التمر من الشفاء (11/ 326)،ط. المكتب الإسلامي - دمشق، بيروت، الطبعة: الثانية، 1403هـ - 1983م)

شرح المصابیح لابن الملک میں ہے:

"لم يضره ذلك اليوم سم ولا سحر"، تخصيص هذا النوع بالذكر؛ لثبوت خاصية فيه لدفع السم والسحر، عرفها النبي صلى الله عليه وسلم، أو لدعائه صلى الله عليه وسلم بأن يكون شفاء لذلك الداء."

(شرح المصابيح لابن الملك: كتاب الاطعمة (4/ 525)،ط.  إدارة الثقافة الإسلامية، الطبعة: الأولى، 1433 هـ - 2012 م)

فیض القدیر شرح الجامع الصغیر للمناوی میں ہے:

"( شفاء من كل سحر أو سم ) لخاصية فيه أو لدعاء النبي صلى الله تعالى عليه وعلى آله وسلم له أو لغير ذلك وهل تناوله أول الليل كتناوله أول النهار حتى يندفع عنه ضرر السحر والسم إلى الصباح احتمالان وظاهر الإطلاق المواظبة على ذلك قال الخطابي : كون العجوة ينفع من السحر والسم إنما هو ببركة دعوة المصطفى صلى الله عليه و سلم لتمر المدينة لا لخاصية في التمر وقال ابن التين : يحتمل أن المراد نخل خاص لا يعرف الآن أو هو خاص بزمنه."

(فيض القدير للمناوي: حرف الفاء (4/ 457)،ط.  المكتبة التجارية الكبرى - مصر، الطبعة الأولى ، 1356)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144212202121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں