بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

کیاشہید کردہ مسجد کا سامان دوسری مسجد میں استعمال کرنا جائزہے؟


سوال

ایک مسجد ہے جو کئی سالوں سے ویران تھی ،آبادی ختم ہوگئی ہے تو بارشوں میں وہ مسجد بالکل شہید ہوگئی ہے ، اب اہلِ علاقہ نے دوسری جگہ پر آبادی میں نئی مسجد بنائی ہے تو کیا اس ویران شہید مسجد کا سامان لوہا، اینٹیں وغیرہ اس نئی مسجد میں استعمال کی جاسکتی ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ جس جگہ پر ایک دفعہ مسجد بنادی جائے وہ جگہ تاقیامت مسجد ہی رہتی ہےاس جگہ كو  دوسرے کسی کام میں استعمال کرناشرعاًجائزنہيں، لہٰذا  صورت ِمسئولہ میں مذکورہ شہید مسجد کی زمین کو مسجد کے علاوہ کسی دوسرے مقصد میں استعمال کرنادرست نہیں،بلکہ اس کو آباد کرنے کی کوشش کرنا ضروری ہے اور اس شہید مسجد سے حاصل ہونے والا سامان اسی مسجد کی تعمیر میں صرف کرنا ضروری ہے، کسی اور مسجد میں استعمال کرنا جائز نہیں۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ولو خرب ما حوله واستغني عنه، يبقى مسجدا عند الإمام والثاني) أبدا إلى قيام الساعة، (وبه يفتي) حاوي القدسی.وفي الرد : (قوله: ولو خرب ما حوله) أي ولو مع بقائه عامرا وكذا لو خرب وليس له ما يعمر به وقد استغنى الناس عنه لبناء مسجد آخر (قوله: عند الإمام والثاني) فلا يعود ميراثا ولا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر، سواء كانوا يصلون فيه أو لا، وهو الفتوی، حاوي القدسي، وأكثر المشايخ عليه، مجتبى، وهو الأوجه، فتح. اه. بحر."

(کتاب الوقف، مطلب فيما لوخرب المسجد أو غيرہ،ج:4، ص:358، ط:سعید)

الاشباہ والنظائر میں ہے:

"ولاتجوز إعارة أدواته لمسجد آخر."

 (الفروق،ص:471،ط:دارالکتب العلمیة بیروت)

مجمع الانہر میں ہے:

 "ونقض الوقف یصرف إلی عمارتہ ان احتاج والا حفظ الی وقت الحاجۃ وان تعذر صرف عینہ یباع ویصرف ثمنہ إلیہا."

(كتاب الوقف،ج:1،ص:743،ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403100121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں