وضو میں استنجا ضروری ہے؟
واضح رہے کہ وضو میں چار اعضاء کا دھونافرض ہے1)پورے چہرے کا دھونا،2)کہنیوں سمیت دونون ہاتھوں کا دھونا ،3) چوتھائی سر کا مسح کرنااور4) ٹخنوں سمیت دونوں پاؤں کا دھونا ، لہذا وضو کے لیے استنجاء ضروری نہیں ،البتہ اگر کوئی شخص قضائے حاجت سے فارغ ہوا ہو اور نجاست پیشاب یا پاخانہ کی جگہ سے تجاو ز کر جائے تو استنجاء کرنا ضروری ہوگا ،اور اگر نجاست ایک درہم سے کم ہو اور اپنی جگہ سے تجاوز بھی نہیں کی ہو تو استنجاء کرنا سنت ہوگا اور نہیں کرنے کی صورت میں نماز مکروہ ہوگی ،اور اگر نجاست با لکل نہ ہو تو اتباع سنت میں استنجاء کرنے سے سنت کی نیت کے ساتھ ثواب ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما سنن الوضوء فكثيرة بعضها قبل الوضوء، وبعضها في ابتدائه، وبعضها في أثنائه، (أما) الذي هو قبل الوضوء (فمنها) : الاستنجاء بالأحجار، أو ما يقوم مقامها،....فالاستنجاء سنة عندنا، ....حتى لو ترك الاستنجاء أصلا جازت صلاته عندنا، ولكن مع الكراهة، والكلام فيه راجع إلى أصل ، وهو أن قليل النجاسة الحقيقية في الثوب والبدن عفو في حق جواز الصلاة عندنا،.... ثم ابتداء الدليل على أن الاستنجاء ليس بفرض ما روي عن النبي - صلى الله عليه وسلم - أنه قال من استجمر فليوتر، من فعل فقد أحسن، ومن لا فلا حرج."
(كتاب الطهارة، فصل سنن الوضوء، ج1 ، ص18 ،ط: دار الكتب العلمية)
الموسوعہ الفقهيہ الكويتيہ:
"فالسنة عند الحنفية بالمعنى الفقهي نوعان: سنة الهدى: وهي ما تكون إقامتها تكميلا للدين، وتتعلق بتركها كراهة أو إساءة، كصلاة الجماعة، والأذان، والإقامة، ونحوها، وذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم واظب عليها على سبيل العبادة، وتسمى أيضا السنة المؤكدة. سنن الزوائد: وهي التي لا يتعلق بتركها كراهة ولا إساءة، لأن النبي صلى الله عليه وسلم فعلها على سبيل العادة، فإقامتها حسنة، كسير النبي صلى الله عليه وسلم في لباسه وقيامه، وقعوده وأكله، ونحو ذلك."
(سنة،السنة بالاصطلاح الفقهي،ج25، ص256، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100606
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن